خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ویجوز صرفہا إلی من لا یحل لہ السوال إذا لم یملک نصاباً۔ (عالمگیري ۱؍۱۸۹) قال في الہندیۃ: الأفضل في الزکاۃ والفطر والنذور الصرف أولاً إلی الإخوۃ والأخوات ثم إلی أولادہم۔ (الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۹۰) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۱؍۱۴۱۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہجس پر فطرہ واجب نہ ہو اس کا فطرہ دینا؟ سوال(۳۵۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جس کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ وہ فطرہ دے سکے، تو کیا اس کے اوپر بھی فطرہ واجب ہے یا نہیں؟ اور اگر واجب ہے تو کیا وہ اپنے اوپر خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو صاحبِ نصاب نہ ہو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے۔ قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صدقۃ إلا عن ظہر غنًی۔ (ذکرہ البخاري تعلیقاً ۱؍۳۸۴، وقد وصلہ الإمام أحمد في مسندہ عن أبي ہریرۃ ۲؍۲۳۰) باب صدقۃ الفطر: تجب علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب أو قیمتہ، وإن لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر ولم یکن للتجارۃ فارغ عن الدین وحاجتہ الأصلیۃ وحوائج عیالہ۔ (نور الإیضاح علی مراقي الفلاح / باب صدقۃ الفطر ۲۶۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ولا تجب ہٰذہ الصدقۃ إلا علی حر مسلم غني، والغنی أن یملک نصاباً أو ما قیمتہ قیمۃ النصاب فاضلاً عن مسکنہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۵۳ زکریا) تجب الخ علی ذي نصاب فاضل عن حاجتہ الأصلیۃ۔ (التنویر مع الدر المختار ۲؍۳۶۰) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۴؍۱۱؍۱۴۱۹ھ