خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
لایجوز ۲؍۲۶۱ دار الفکر بیروت، مجمع الأنہر، الزکاۃ / باب في بیان أحکام المصرف ۱؍۲۲۰ دار إحیاء التراث بیروت،مراقي الفلاح مع الطحطاوي ۳۹۲ کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۱؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہقرضہ جات کی ادئیگی کے لئے ادارہ کا زکوٰۃ وصول کرنا؟ سوال(۱۵۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید ایک ادارہ برائے وصول یابیٔ زکوٰۃ کسی مخصوص برادری کے افراد سے قائم کرتا ہے، اور خاص اسی برادری کے ضرورت مند افراد پر مندرجہ ذیل مدات میں خرچ کرتا ہے: الف:- ادائیگی قرضہ جات سودی وغیر سودی۔ ب:- قرضِ حسن برائے ادائیگی قرضہ جات سودی اور بعد وصولی اس رقم کو بلا قید قرض ادائیگی قرضہ جات سودی وغیر سودی کے لئے دینا۔ ج:- کچھ سرمایہ مستقل برائے ضروریات ہنگامی رکھنا چاہتا ہے ، مثلاً امداد مسافر وامداد برائے فساد زدگان بلاقید برادری۔ د:- بقدر پانچواں حصہ برائے اخراجات طعام طلبہ مدرسہ دینیات مخصوص کرتا ہے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی رقم سے مال داروں کے قرضہ جات ادا کرنا، اور بلا حکم فقراء کے قرضے ادا کرنا، اسی طرح زکوٰۃ کی رقم عام مسلمانوں کو بطور قرضہ دینا یا ہنگامی ضرورتوں کے لئے لمبی مدت تک محفوظ رکھنا درست نہیں ہے؛ لہٰذا ان مقاصد کے لئے کسی خاص ادارہ کا قیام بھی صحیح نہیں ہوگا۔ بریں بنا ہر صاحبِ نصاب شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق اپنی زکوٰۃ شرعی مصارف میں شرعی طریقہ پر ادا کرے، اور اداء زکوٰۃ کے اجتماعی نظام میں شامل ہوکر زکوٰۃ کو خطرے میں نہ ڈالے۔ (مستفاد: کفایت المفتی ۴؍۳۰۶-۳۰۷)