خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وفي الروضۃ: إذا دفع المزکي المال إلی الفقیر، ولم ینو شیئا، ثم حضرتہ النیۃ عن الزکاۃ ینظر: إن کان المال قائما في ید الفقیر صار عن الزکاۃ، وإن تلف لا۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۳؍۱۹۷ رقم: ۴۱۱۴ زکریا) ولو مقارنۃ حکمیۃ کما لو دفع بلانیۃ ثم نوی والمال قائم بید الفقیر۔ (مراقي الفلاح ۳۹۰، شامي ۳؍۱۸۷ زکریا، کذا في البحر الرائق ۲؍۳۶۸) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۹؍۱۴۱۹ھرمضان المبارک میں جب سائلوں کی کثرت ہو تو زکوٰۃ کس کو دیں؟ سوال(۱۸۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: رمضان المبارک میں سائل کثیر تعداد میں آتے ہیں، ان میں کچھ حضرات مدارس کے چندہ کے سلسلہ میں آتے ہیں اور کچھ فرضی بھی ہوتے ہیں، ان کے لئے کیا حکم ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس سائل کے بارے میں آپ غالب گمان یہ کریں کہ وہ مصرفِ زکوٰۃ ہے، تو اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے، اور جن کے بارے میں شک ہو، ان پر زکوٰۃ صرف نہ کریں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] مصرف الزکاۃ وہو فقیر وہو من لہ أدني شيء أي دون نصاب۔ (الدر المختار ۳؍۲۸۳-۲۸۴ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم أما لو تحری، فدفع لمن ظنہ غیر مصرف أو شک ولم یتحر، لم یجز حتی یظہر أنہ مصرف، فیجزیہ في الصحیح خلافا لمن ظن عدمہ۔ (شامي ۳؍۳۰۲ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۲؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ