خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قارنًا وقع الأول للعمرۃ والثاني للقدوم، ولو کان في یوم النحر إذا طاف فہو للزیارۃ، وإن طاف بعد ما حل النفر فللصدر ولو کان نواہ للتطوع۔ (شرح فتح القدیر ۲؍۴۹۵ دار الفکر بیروت) ولو أخر طواف الزیارۃ کلہ أو أکثرہ عن أیام النحر فعلیہ دم۔ (غنیۃ الناسک ۳۵۳) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۰؍۳؍۱۴۳۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ۱۲؍ ذی الحجہ کو غروب کے بعد طواف زیارت کرنے پر دم کیوں واجب ہے؟ سوال(۱۱۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کسی حاجی کی ۱۲؍ تاریخ کی کنکری غروب تک نہ ماری جاسکی، تو اس کو اجازت ہے کہ صبح صادق سے پہلے پہلے تک کنکر مارسکتا ہے، اگرچہ کراہت کے ساتھ ہو؛ کیونکہ رات ۱۲؍ کی تاریخ دن کے تابع ہے یہ مسئلہ طواف زیارت کے ساتھ کیوں نہیں ہے، اگر ۱۲؍ تاریخ کی غروب سے پہلے پہلے کوئی حاجی طواف زیارت نہ کرسکا بلکہ ۱۲؍ تاریخ کے غروب کے بعد رات میں کرلیا، تو اس پرد م کیوں واجب ہے، جب کہ رات ابھی دن ہی کے تابع ہے تشفی فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: راجح قول میں طواف زیارت کو ایام نحر میں کرنا واجب ہے، اور ایام نحر کا وقت حنفیہ کے نزدیک ۱۲؍ ذی الحجہ کے غروب آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے، اور اگلی رات ۱۲؍ کی تابع نہیں ہوتی ہے؛ لہٰذا بلا عذر شرعی ۱۲؍ تاریخ سے طوافِ زیارت کو مؤخر کرنے پر دم لازم ہوگا، اور راتوں کے پچھلے دنوں کے تابع ہونے کی بات صرف ۱۰-۱۱-۱۲؍ کی رمی میں ہے، ۱۳؍ کی رمی میں اگلی رات تابع نہیں ہے، اور تیرہ کی رمی کا وقت غروب آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے، اس