خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
اور الحمد للہ ہم سکون سے رہ رہے ہیں۔ ایک لڑکا جو ہمارا متبنیٰ ہے، وہ اس میں کام کرتا ہے اور میں چوں کہ کمزور ہوگیا ہوں، کچھ کام نہیں کرسکتا، اسی بناء پر وہاں سے ملازمت چھوڑدی ہے، اور اس لڑکے کی آمدنی سے ہی ہمارا گذر بسر ہورہا ہے، میں اس وقت بھی صاحبِ نصاب نہیں تھا، اور آج بھی صاحب نصاب نہیں ہوں۔ ہمارے وہ عزیز جنہوں نے روپئے دئے تھے، ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ رقم ہم نے زکوٰۃ کی مد سے دی تھی، کیا یہ رقم میرے لئے جائز تھی یا نہیں اور کیا ہمارے ان عزیز کی زکوٰۃ ادا ہوگئی یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورتِ مسئولہ کے مطابق جب آپ رقم لیتے وقت صاحبِ نصاب نہیں تھے، تو آپ کے لئے بحالتِ مجبوری زکوٰۃ کی رقم لینا جائز تھا، اور قرض یا اعانت کے طور پر بنیت زکوٰۃ رقم دینے سے آپ کے ان عزیز کی زکوٰۃ بھی ادا ہوگئی۔ (مستفاد: ایضاح المسائل ۱۱۵، احسن الفتاویٰ ۴؍۲۶۴، فتاویٰ رحیمیہ ۶؍۲۰۳) وشرط صحۃ أدائہا نیۃ مقارنۃ للأداء (درمختار) قال ابن عابدین تحت قولہ: (نیۃ) أشار إلی أنہ لا اعتبار للتسمیۃ فلو سماہا ہبۃ أو قرضاً تجزیہ في الأصح۔ (درمختار علی الرد المحتار ۳؍۱۸۷ زکریا) وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیوناً، وکان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لایخص کلا، أو لا یفضل بعد دینہ نصاب فلا یکرہ۔ (الدر المختار مع الشامي / باب المصرف ۳؍۳۰۳ زکریا، مجمع الأنہر الزکاۃ / فی بیان أحکام المصارف ۱؍۳۳۳ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۴؍۱۴۲۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہیتیم بچی کی شادی کے لئے زکوٰۃ کی رقم دینا؟ سوال(۱۸۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں