خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حاصل کرتے ہیں، تو ان گاؤں کے بچوں کی تعلیم کے لئے جو مدرسہ آباد ہے، اس میں زکوٰۃ، فطرہ، چرمِ قربانی اور صدقہ وغیرہ کی رقم کسی دوسرے مدرسہ سے یا کسی غریب شخص سے تملیک کراکے مدرسہ کے کام میں لاسکتے ہیں یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے اداروں کے لئے صرف نفلی عطیات کی رقمیں حاصل کرنی چاہئیں، ان کے لئے حیلۂ تملیک کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ فذہب علمائنا رحمہم اللّٰہ إن کل حیلۃ یحتال بہا الرجل لإبطال حق الغیر أو لإبطال شبہۃ فیہ أو لتمویہٍ باطل فہي مکروہۃ، وفي العیون: وفي جامع الفتاویٰ لا یسعہ ذٰلک۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۰؍۳۱۱ رقم: ۱۴۸۴۵ زکریا، الفتاوی الہندیۃ ۶؍۳۹۰ بیروت) أما الإحتیال لإبطال حق المسلم فإثم وعدوان، وقال النسفي: في الکافي عن محمد ابن الحسن قال لیس من أخلاق المؤمنین الفرار من أحکام اللّٰہ بالحیل الموصلۃ إلی إبطال الحق۔ (عمدۃ القاري ۲۴؍۱۰۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۵؍۳؍۱۴۱۲ھمدرسہ کے نابالغ سمجھ دار بچوں پر زکوٰۃ خرچ کرنا؟ سوال(۲۵۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدرسوں میں جو نابالغ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کھانا بھی مدرسہ ہی سے کھاتے ہیں، جب کہ صرف ہونے والی رقم زکوٰۃ فطرہ ہوتی ہے، تو وہ رقم ان پر صرف ہوسکتی ہے؟ اور زکوٰۃ ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: نابالغ سمجھ دار بچوں پر تملیکاً خرچ کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔