خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
مسلم۔ وقال علیہ السلام: نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ۔ رواہ البخاري۔ (تبیین الحقائق باب المصرف ۱؍۳۰۳ إمدادیہ ملتان، بحوالہ: تعلیقات فتاویٰ محمودیہ ۱۴؍۱۸۷ میرٹھ، وکذا في الدر المختار علی الشامي ۲؍۲۵۸ کراچی، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۳ زکریا، طحطاوي ۷۲۰ دارالکتاب) ولا یدفع إلی بني ہاشم وہم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب۔ (الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۳؍۱۰؍۱۴۲۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہکیا مدارس میں طلبہ کو دیا جانے والا وظیفہ طلبۂ سادات کو لینا درست ہے ؟ سوال(۲۳۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دینی مدارس میں جو وظیفہ کے طور پر طالب علم کو پیسہ دیا جاتا ہے، کیا یہ پیسہ سادات طلبہ کے لئے لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کسی حیلہ کے ساتھ اور اگرجائز ہے تو کیا دلیل ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: سادات طلبہ کے لئے زکوٰۃ کی رقم سے وظیفہ لینا بالکل جائز نہیں ہے، مدرسہ والوں کو چاہئے کہ وہ ایسے طلبہ کے لئے صرف ہدیہ وغیرہ کی رقم سے وظیفہ کا انتظام کریں۔ ولا یدفع إلی ہاشمي وہو ظاہر الروایۃ۔ (مجمع الأنہر ۱؍۳۳۰ بیروت) (وبني ہاشم وموالہیم) أي لا یجوز الدفع لہم لحدیث البخاري نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ۔ (البحر الرائق ۲؍۲۴۶ کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۷؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ