خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قولہ: نیۃ أشار إلی أنہ لا اعتبار للتسمیۃ فلو سماہا ہبۃ أو قرضاً في الأصح۔ (الدر المختار مع الشامي / کتاب الزکاۃ ۳؍۱۸۷ زکریا) والأفضل إخوتہ وأخواتہ۔ (شامي ۳؍۳۰۴ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۷؍۲؍۱۴۳۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہغریب بھائیوں کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۱۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: والد مرحوم کی بیوہ جو ان کی تیسری بیوی ہیں، ان کے بچوں کو شادی وغیرہ کی مد میں اور بھی تمام اخراجات کے لئے زکوٰۃ ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان بھائیوں کو زکوٰۃ دینی درست ہے، بشرطیکہ وہ زکوٰۃ کے مستحق ہوں۔ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: لا بأس أن تجعل زکاتک في ذوي قرابتک ما لم یکونوا في عیالک۔ (المصنف لابن أبيشیبۃ ۶؍۵۴۳ رقم: ۱۰۶۳۳) والأفضل في الزکاۃ والفطر … أولاً إلی الإخوۃ والأخوات۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰) والأفضل إخوتہ وأخواتہ۔ (شامي زکریا ۳؍۳۰۴) رجل یعول أختہ وأخاہ … فأراد أن یعطیہ الزکاۃ إن لم یکن فرض علیہ القاضي نفقتہ جاز۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۰ رقم: ۴۱۸۱ زکریا، البحر الرائق ۲؍۲۴۳، فتاویٰ محمودیہ میرٹھ ۱۴؍۲۱۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۱۱؍۱۴۱۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ