خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وإن ہلک المال بعد وجوب الزکاۃ سقطت الزکاۃ، ولنا أن الواجب جزء من النصاب تحقیقاً للتیسیر فیسقط بہلاک محلہ۔ (ہدایۃ ۱؍۲۱۰ مکتبۃ بلال دیوبند) فأما وجوب العشر فلا یمنع؛ لأنہ متعلق بالطعام یبقی ببقائہ ویہلک بہلاکہ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۸۵ زکریا) وأما بیان ما یسقطہا بعد وجوبہا فالسقط لہا بعد الوجوب أحد الأشیاء الثلاثۃ منہا ہلاک النصاب بعد الحول قبل التمکن من الأداء وبعدہ عندنا۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۶۷ زکریا) وسبب افتراضہا ملک نصاب حولي … فارغ عن حاجتہ الأصلیۃ۔ (تنویر الأبصار علی الدر المختار ۳؍۱۷۴ زکریا) ویحتمل أن یکون احترازاً عما وجد في دار الحرب، فإن أرضہا لیست أرض خراج، أو عشر۔ (شامي ۳؍۲۵۷ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۵؍۵؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہعشری زمینوں کو بٹائی پر دینے کے بعد عشر کس پر واجب ہوگا؟ سوال(۳۳۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جن کے پاس کھیت ہیں، کھیت والا بٹائی پر کھیت دے دیتا ہے، تو کیا دونوں کے اوپر عشر واجب ہے یا ایک پر؟ اور ہے تو کتنی کتنی مقدار ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہندوستانی زمینوں میں اگرچہ عشر واجب نہیں؛ لیکن جہاں عشر واجب ہو وہاں حکم یہ ہے کہ اگر بیج بٹائی پر لینے والے نے ڈالا ہے تو عشر دونوں (مالک زمین اور عامل) پر اپنے اپنے حصہ کے بقدر واجب ہوتا ہے، اور اگر بیج صاحبِ زمین کا ہے تو اسی پر عشر لازم ہے۔