خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
والوں کو نمازی یا زکاتی نہیں لکھا جاتا؛ کیوں کہ ان اعمال کے کرنے والے اتنی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں کہ اس صفت سے امتیاز کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا؛ تاہم ریاکاری اور شہرت کی غرض سے اپنے کو حاجی کہلوانا مذموم ہے۔ (امداد الفتاوی ۵؍۱۸۳) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۷؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہحج مقبول کی علامات سوال(۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا حاجی کے حج قبول ہونے کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ حج سے فراغت کے بعد گناہوں کے کام چھوڑدے، مثلاً داڑھی رکھ لے، معاملات صحیح ہوجائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: یقینا حج مقبول کی علامت یہی ہے کہ آدمی سابقہ گناہوں کو بالکل ترک کردے اور حج کے ذریعہ سے اس کی زندگی میں خوش گوار دینی انقلاب آجائے، جو شخص اس معاملہ میں کوتاہی کرتا ہو اور حج کے بعد بھی گناہوں پر جما رہتا ہو، وہ بلاشبہ حج مقبول کی ایک علامت سے محروم سمجھا جائے گا؛ تاہم ان معاصی کی وجہ سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا حج ادا نہیں ہوا، ادا ہونا الگ بات ہے اور قبول ہونا الگ بات ہے۔ قیل: ہو المقبول، ومن علامات القبول أنہ إذا رجع یکون حالہ خیراً من الحال الذي قبلہ۔ (عمدۃ القاري ۱؍۱۸۸، فتح الباري ۱؍۹۹) والقبول المترتب علیہ الثواب یبتني علی أشیاء: کحل المال والإخلاص کما لو صلی مرائیا أو صام واعتاب، فإن الفعل صحیح لکنہ بلا ثواب۔ (شامي، الحج / مطلب: فیمن حج بمال حرام ۳؍۴۵۳ زکریا، ۲؍۴۵۶ کراچی) وإذا حج الإنسان ولم یتب خشي علیہ عدم القیول۔ (البحر العمیق ۱؍۴۲۴