خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … ومن استاجر أجیراً فلیعلمہ أجرہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۶؍۱۹۸ رقم: ۱۱۶۵۱) أخرج عبد الرزاق عن الثوري في رجل یکتري من رجل إلی مکۃ، ویضمن لہ الکری نفقتہ إلی أن یبلغ، قال: لا، أن یوقت أیاماً معلومۃ، وکیلاً معلوماً من الطعام یعطیہ إیاہ کل یوم۔ (المصنف لعبد الرزاق / البیوع ۸؍۲۱۴ رقم: ۱۴۹۳۸، بحوالہ: التعلیقات علی الفتاوی التاتارخانیۃ ۱۵؍۱۰۱ زکریا) لا تصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ۔ (ہدایۃ ۴؍۲۷۷) کذا استفید من ہٰذہ الجزئیۃ: استأجرہ لیصید لہ أو یحطب لہ فإن وقت لذٰلک وقتاً جاز ذٰلک۔ (درمختار، کتاب الإجارۃ / باب الإجارۃ الفاسدۃ ۶؍۶۲ دارالفکر بیروت، ۹؍۸۵ زکریا) وکذا یستفاد جوازہ من مسئلۃ أجرۃ السمسار لہ، فإن وقت لذٰلک۔ (درمختار، باب ضمان الأجیر / مطلب في أجرۃ الدلال ۶؍۶۳ دار الفکر بیروت، ۹؍۸۷ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۶؍۱۴۲۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہحج سبسڈی کی رعایت سے فائدہ اُٹھانا سوال(۱۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حجاجِ کرام کو مرکزی حکومت کرایہ کی دو تہائی رقم حج سبسڈی کے نام سے دیتی ہے، بعض لوگوں کے قول کے مطابق یہ حاجیوں سے پیشگی وصول کردہ کرایہ کی رقم سے وصول شدہ سودی رقم ہوتی ہے، اور یہ سودی رقم سے ملی ہوئی رعایت حج سبسڈی کے نام سے دی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی اس سودی رقم سے حج کے لئے جانا جائز ہے یانہیں؟ اور اگر یہ سودی رقم نہ بھی ہو بلکہ حکومت اپنے خزانے سے دیتی ہو جبکہ حکومت کا مال