خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما أنہ کان یقول: من اعتمر في أشہر الحج في شوال أو ذي القعدۃ أو في ذي الحجۃ قبل الحج، ثم أقام بمکۃ، حتی یدرکہ الحج فہو متمتع إن حج، وعلیہ ما استیسر من الہدی، فإن لم یجد فصیام ثلاثۃ أیام في الحج وسبعۃ إذا رجع۔ (المؤطا لإمام مالک، الحج / باب ما جاء في التمتع ۲۴۱ رقم: ۶۲) أن المتمتع ہو الذي اعتمر في أشہر الحج وحج من عامہ ذٰلک في سفر واحد ولا یلم بأہلہ فیما بینہما إلماماً صحیحًا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۲۱ رقم: ۵۱۹۱ زکریا) التمتع ہو أن یفعل العمرۃ أو أکثر أشواطہا في أشہر الحج۔ (تنویر الأبصار علی الدر ۲؍۵۳۵ کراچی، ۳؍۵۶۱ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۳؍۱۴۱۱ھمتمتع شخص عمرہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ چلا گیا؟ سوال(۷۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: راقم الحروف کے برادر خورد حج ٹور کے مہتمم ہیں، ہوتا یہ ہے کہ موسم حج کے ابتدائی دنوں میں یہ اپنا ٹور لے کر وطن سے پرواز کرجاتے ہیں، میقات سے احرام باندھ کر حج تمتع وعمرہ کی نیت کرتے ہیں، مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد عمرہ کی ادائے گی پوری کرکے احرام کھول دیتے ہیں، اور ۲۰، ۲۲ روز مقیم مکہ رہ کر حج سے ۱۲ یا ۱۳ روز قبل مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں، حج سے دو روز قبل ان کی واپسی حج کے مدینہ سے بجانب مکہ ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ: (۱) اس وقت مدینہ کی میقات ذو الحلیفہ سے جو احرام باندھا جائے گا، کیا حج قران کی نیت سے احرام باندھا جاسکتا ہے، کیا اس طرح سے حج قران ممکن ہوسکتا ہے، اور اس کی فضیلتیں حاصل ہوسکتی ہیں؟ (۲) کیا ہم وطن سے روانگی کے قت میقات پر صرف عمرہ کی نیت کریں مکہ پہنچ کر عمرہ ادا