خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
10؍ذوالحجہ کو صبح صادق کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے رمی کرنا کیسا ہے؟ سوال(۱۳۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دنیا کے بدلتے ہوئے حالات، بڑھتی ہوئی آبادی اور دوسرے مسائل نے ہر شعبۂ زندگی کو متاثر کیا ہے، حتی کہ عبادات بھی اس سے خالی نہیں، اس لئے آج اہل علم ایسے مسائل کو بھی اپنی تحقیقات وترجیحات کاموضوع بنانے پر مجبور ہیں، جن کا تعلق عبادات سے ہے۔ ایسے مسائل میں حج سے متعلق بھی بعض امور ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا حج وعمرہ کے مسائل کے لئے ایک سمینار پہلے بھی کر چکی ہے، مگر بعض مسائل نے پھر اکیڈمی کو اس طرح توجہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس پس منظر میں فی الحال دو مسائل پیش خدمت ہیں: الف:- رمی جمار کے اوقات: جمرات کی رمی حج کے معروف اعمال میں ہے، دس ذی الحجہ کی رمی کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور ات کے آخر تک باقی رہتا ہے، گیارہ اور بارہ کی رمی کا وقت زوال سے شروع ہوکر اگلی صبح تک مانا گیا ہے؛ البتہ ان تینوں دنوں کی رمی کے اوقات کے سلسلہ میں فقہاء نے جائز، مستحب اور مکروہ اوقات کی تقسیم بھی کی ہے، تیرہ ذی الحجہ کو منی میں قیام اور رمی لازمی نہیں ہے۔ اس تفصیل کے ساتھ یہ بھی صراحت موجود ہے کہ ضرورت کے وقت اگر وقت مسنون ومستحب سے رمی کو مقدم یا موخر کیا جائے تو کراہت نہیں ہوتی ہے۔ آج کل حجاج کی بڑھتی ہوئی غیر معمولی تعداد کے پیشِ نظر رمی جمار کے موقع پر مجمع کثیر اکٹھا ہوجاتا ہے، جو تمام تر انتظامات کے باوجود سنگین حادثات کا سبب بن جاتا ہے، پچھلے برسوں میں متعدد ایسے حادثات رونما ہوئے جن میں مرنے والوں کی تعدا بڑھتی جارہی ہے، اس صورت حال پر سعودی حکومت اور وہاں کے علماء کے علاوہ عالمی سطح پر پوری امتِ مسلمہ رنجیدہ فکر مند ہے، اور یہ