خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کی رقم سے دواخانہ کے لئے مکان کی خریداری کی جاسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں ذکر کردہ مقاصد کے لئے زکوٰۃ کی وصولی اور اس کا استعمال جائز نہیں؛ اس لئے کہ دواخانہ سے نفع اٹھانے والے لوگ مال دار اور صاحب نصاب بھی ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں، نیز زکوٰۃ کا روپیہ مذکورہ ادارہ کے لئے مکان کی خریداری اور اس کی تعمیر میں نہیں لگایا جاسکتا؛ کیوںکہ یہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں؛ لہٰذا مذکورہ مقاصد کے لئے صرف امدادی رقم حاصل کی جائے، زکوٰۃ حاصل نہ کی جائے۔ قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاِبْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [التوبۃ: ۶۰] ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃ کما مر، لا یصرف إلی بناء نحو مسجد، قولہ: نحو مسجد کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۲۹۱ زکریا) قولہ: بناء مسجد وتکفین میت وقضاء دینہ وشراء قنٍّ یعتق … وعدم الجواز لانعدام التملیک الذي ہو الرکن۔ (البحر الرائق / مصارف الزکاۃ ۲؍۲۴۳ کوئٹہ) ولا یجوز أن یبنی بالزکاۃ المسجد وکذا القناطر والسقایات وصلاح الطرقات وکل ما لا تملیک فیہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸ دار الفکر بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۴؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہبیت المال میں زکوٰۃ جمع کرکے درج ذیل مصارف میں خرچ کرنا سوال(۱۵۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے