خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
دفع قوم زکاۃ أموالہم إلی رجل یقبضہ لفقیر واحد، فاجتمع عندہ أکثر من مائتي درہم فکل من دفع قبل البلوغ إلی المائتین جاز لأکل من دفع بعدہ، إلا إذا کان الفقیر مدیونا۔ (بزازیۃ علی ہامش الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۸۵) مصرف الزکاۃ والعشر ہو الفقیر، وہو من لہ أدنی شيء۔ (الدر المختار / باب المصرف ۲؍۳۳۹ کراچی) ولا یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصابا، أي مال کان دنانیر أو دراہم أو سوائم أو عروضہا للتجارۃ أو لغیر التجارۃ فاضلاً عن حاجتہ في جمیع السنۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹، کذا في الدر المختار مع الشامي ۳؍۲۹۵ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۱؍۱۴۳۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہجو شخص بقدر نصاب سونے چاندی کا مالک ہو اُس کا یومیہ خرچ کے لئے زکوٰۃ لینا؟ سوال(۱۹۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی صاحب نصابِ نامی کامالک ہو، زیورات وغیرہ کی وجہ سے اور وہ زکوٰۃ وصول کرتا ہے؛ اس لئے کہ اس کی روزانہ خرچہ کے بقدر کمائی نہیں، ایسے شخص کو زکوٰۃ لینا یا دینا کیسا ہے، کیا زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص بقدر نصاب زیورات وغیرہ کا مالک ہو، اس کے لئے زکوٰۃ لینا بہرحال ناجائز ہے؟ علم کے باوجود اس کو زکوٰۃ دینے سے مالکین کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن ابن عمررضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل