خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
جس کی بیوی سید ہو اس کے بچوں کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۳۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید کی بیوی سید ہے، زید سید نہیں ہے، زید کا انتقال ہوچکا ہے، زید کی بیوی اور بچے حیات ہیں جوکہ صاحب نصاب نہیں ہیں، اور پریشان حال ہیں تو کیا زید کی سید بیوی سے بچے سید کہلاسکتے ہیں؟ اور زید کی سید بیوی سے جو بچے ہیں ان کو زکوٰۃ یا صدقہ دے سکتے ہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: شرعاً نسب باپ سے چلتا ہے؛ لہٰذا مسئولہ صورت میں جب کہ باپ غیر سید ہے، تو اس کی اولاد کو زکوٰۃ دینی درست ہے۔ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حدیث طویل… إن الصدقۃ لاتنبغی لآل محمد إنما ہي أوساخ الناس۔ (الصحیح للمسلم ۱؍ ۳۴۴ رقم: ۱۰۸۲) قال عبد المطلب: فانطلقت أنا والفضل حتی أتینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال لنا: إن ہٰذہ الصدقۃ إنما ہي أوساخ الناس وأنہا لا تحل لمحمد ولا لآل محمد۔ (سنن النسائي / باب استعمال آل النبي علی الصدقۃ رقم: ۲۶۰۵) من کانت أمہا علویۃ مثلاً وأبوہا عجمي یکون العجمي کفوًا لہا، وإن کان لہا شرف ما لأن النسب للآباء، ولہٰذا جاز دفع الزکاۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب النکاح / باب الکفاء ۃ ۴؍۳۱۰ زکریا، ۳؍۸۷ کراچی) ولا یدفع إلی بني ہاشم وہم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب۔ (الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۹) (وبني ہاشم وموالہیم) أي لا یجوز الدفع لہم لحدیث البخاري نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ ولحدیث أبي داؤد مولی القوم من أنفسہم وأنا لاتحل لنا الصدقۃ أطلق في بني ہاشم۔ (البحر الرائق ۲؍۲۴۶ کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۴؍۹؍۱۴۱۷ھ