خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کیا پیدا وار کا چالیسواں حصہ ادا کرنے سے عشر ساقط ہوجائے گا؟ سوال(۳۲۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا کھیت کی آمدنی پر زکاۃ کی طرح چالیسواں حصہ ادا کرنا عشر کی فرضیت کو ساقط کردیگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشر اس زمین میں واجب ہوتاہے جو مسلم حکومت (مثلاً مغلیہ حکومت) سے لے کر آج تک برابر کسی مسلمان کی ملکیت میں رہی ہو، یا عرصۂ دراز سے مسلمان کی ملک ہو اور اس کا کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ کسی غیر مسلم کی ملکیت میں رہی ہے، تو ایسی زمین پر عشر واجب ہے، اگر آپ کی زمین اس دائرہ میں آتی ہے تو پیداوار کا دسواں حصہ نکالنا ضروری ہے، محض چالیسواں حصہ نکالنے سے ذمہ ساقط نہ ہوگا۔ (فتاویٰ محمودیہ ۹؍۴۳۶-۴۳۶ ڈابھیل) عن سالم بن عبد اللّٰہ عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فیما سقت السماء والعیون أو کان عشریاً العشر، وما سقي بالنضح نصف العشر۔ (صحیح البخاري ۱؍۲۰۱ رقم: ۱۴۶۱، صحیح مسلم ۱؍۳۱۶ رقم: ۹۸۱) عن العلاء بن الحضرمي رضي اللّٰہ عنہ قال: بعثني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی البحرین أو إلی ہجر، فکنت أتی الحائط یکون بین الإخوۃ یسلم أحدہم فأخذ من المسلم العشر ومن الشرک الخراج۔ (سنن ابن ماجۃ، الزکاۃ / باب العشر والخراج ۱؍۱۳۱ رقم: ۱۸۳۱ أشرفیۃ) قال العلامۃ السندي في قولہ: ’’فأخذ من المسلم العشر‘‘ یدل علی أن الأرض الخراجیۃ، إذا أسلم أہلہا تصیر عشریۃ۔ (حاشیۃ السندي علی سنن ابن ماجۃ ۴۲۹ دار الفکر بیروت) کل أرض أسلم أہلہا أو فتحت عنوۃ وقسمت بین الغانمین فھي أرض عشر؛ لأن الحاجۃ إلی ابتداء التوظیف علی المسلم، والعشر ألیق بہ لما فیہ