خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
إذا أعطی من زکاتہ مائتي درہم أو ألف درہم إلی فقیر واحد، فإن کان علیہ دین مقدار ما دفع إلیہ…، أوکان صاحب عیال یحتاج إلی الإنفاق علیہم فإنہ یجوز ولا یکرہ، وإن لم یکن علیہ دین ولا صاحب عیال فإنہ یجوز عند أصحابنا الثلاثۃ ویکرہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۱ زکریا، ومثلہ في الدر المختار / باب المصرف ۳؍۳۰۳ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۱۱؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہرشتہ دار، پڑوسی اور اہل محلہ میں زکوٰۃ کا صحیح حق دار کون ہیں ؟ سوال(۱۶۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث پاک کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ زکوٰۃ کے پیسے کا صحیح حق دار کون ہے؟ الف:- غریب رشتہ دار، اگر ہاں تو کون کون؟ ب:- غریب پڑوسی تو کیا صرف مسلمان؟ ج:- غریب محلہ دار اور شہری یا اور کوئی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کے حق دار نادار اور غریب لوگ ہیں، اگر وہ رشتہ دار ہوں تو انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا اَجر ہے، ایک زکوٰۃ کا دوسرے صلہ رحمی کا، اسی طرح پڑوسی اور طلبہ علم دین کو دینے میں بھی دوہرا ثواب ملتا ہے، اور زکوٰۃ صرف مسلمانوں ہی کو دی جائے گی، غیر مسلم کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن سلمان ابن عامر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: