خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
لایجوز ۲؍۲۶۱ المکتبۃ التجاریۃ دار الفکر بیروت، مجمع الأنہر، الزکاۃ / باب في بیان أحکام المصرف ۱؍۲۲۰ دار إحیاء التراث بیروت،مراقي الفلاح مع الطحطاوي ۳۹۲ کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۱۱؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہاجتماعی زکوٰۃ وصولی کے لئے علاقائی یا ملکی سطح پر تنظیم بنانا؟ سوال(۱۵۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: انفرادی طور پر زکوٰۃ ادا کرنے سے بے شک زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ اس سے کوئی بڑا کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اور اگر کسی تنظیم کے تحت اجتماعی طور پر زکوٰۃ جمع کردی جائے تو اس زکوٰۃ کے فنڈ سے بڑے بڑے اہم کام مثلاً کمزور اور تباہ حال مسلمانوں کی آباد کاری اور باز آبادکاری، مفت یا معمولی اخراجات والے ہسپتالوں کا قیام، ناخواندہ یا کم خواندہ مسلمانوں کی شرح تعلیم میں اضافے کے لئے اسکولوں اور کالجوں کا قیام، بے روزگار مسلمانوں کو روزگار سے جوڑنے کے لئے ٹریننگ سینٹروں کا قیام اور اس جیسے بہت سے قومی وملی کام انجام دئیے جاسکتے ہیں۔ آج کے علمی وسائنسی اعتبار سے ترقی یافتہ دور میں مسلمانوں کی علمی پس ماندگی کو دور کرنا اور ضروری ترقی کے لئے راہ ہموار کرنا یقینا وقت کی ایک اہم قومی ضرورت ہے۔ کیا اس ضرورت کی بنیاد پر کسی علاقائی، یا ملکی، یا عالمی تنظیم کے تحت اجتماعی طور پر ایک جگہ زکوٰۃ جمع کی جاسکتی ہے یانہیں؟ اور ایسا کرنا شرعاً درست ہے یانہیں؟ جب کہ اسلامی بیت المال کا قیام نہیں ہے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآنِ پاک اور احادیثِ شریفہ میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کئے گئے ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ کا مقصد غرباء ومساکین کا تعاون ہے، قومی اعتبار سے دنیاوی ترقیات کا حصول زکوٰۃ کے مصارف ومقاصد میں داخل نہیں ہے؛ اس لئے زکوٰۃ انفراداً جمع کی جائے یا اجتماعاً بہر صورت اسے غرباء وفقراء اور مستحقین پر خرچ