خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حجاج کے لئے منیٰ و مزدلفہ میں قصر و اتمام کا مسئلہ نوٹ:- ذیل میں استفادہ کے لئے حضرت الاستاذ کا منیٰ و مزدلفہ میں قصر و اتمام سے متعلق ادارۃ المباحث الفقہیۃ (جمعیۃ علماء ہند) کے دسویں فقہی اجتماع(منعقدہ ممبئی حج ہاؤس۱۴۳۵ھ) کے لئے لکھا گیا مقالہ پیش خدمت ہے۔(از مرتب) خیر القرون کے زمانہ سے سعودی حکومت کے زمانہ تک منیٰ اور مکۃ المکرمہ کے درمیان چھ سات کلومیٹر کا فاصلہ ویران اور صحراء کی شکل میں رہا ہے، اور اس طویل فاصلہ کے درمیان کسی قسم کی کوئی آبادی نہیں رہی ہے، اسی کے تناظر میں خیرالقرون اور فقہاء کے زمانہ سے منیٰ اور مکۃ المکرمہ کو دو الگ الگ مقام شمار کیا جاتا رہا ہے، اور مسئلہ قصر واتمام میں مقیم اس وقت شمار کیا جاتا ہے، جب کہ مقام واحد میں پندرہ دن یا اس سے زائد تسلسل کے ساتھ رات گذارنے کا ارادہ ہو، تو ایسی جگہ پر نمازوں کے اتمام کا حکم ہے، اور اگر الگ الگ فاصلہ کے دو مقاموں میں رات گذارنے کا ارادہ ہو تو مقیم شمار نہیں کیا جاسکتا ہے؛ لہٰذا قصر کرنا لازم ہوجاتا ہے، جیساکہ کتبِ فقہ سے واضح ہے؛ لیکن سعودی حکومت آنے کے بعد خاص طور پر شاہ فہد کے زمانہ میں مکۃ المکرمہ اور منیٰ کے درمیان چھ سات کلومیٹر کے غیرآباد جو میدان اور ٹیلے وغیرہ تھے، وہ سب آبادی میںتبدیل ہوگئے اور ان جگہوں پر شاندار عمارتیں تعمیر ہوگئیں، اور اب یہ آبادی منیٰ کی دونوں جانب سے تجاوز کرکے مزدلفہ اور پھر مزدلفہ سے بھی تجاوز کرکے آگے تک پہنچ چکی ہے، اور منیٰ اور مزدلفہ متصل ہوکر شہر مکۃ المکرمہ کے درمیان میںداخل ہوچکے ہیں، تو اب قابل غور بات یہ ہے کہ خیر القرون کے زمانہ سے سعودی حکومت تک لگ بھگ چودہ سو سال تک دونوں مقامات کے درمیان جو غیر آباد فاصلہ رہا ہے، اس کی حیثیت اور آج کے زمانہ میں متصل ہوکر مکۃ المکرمہ کی آبادی کے بیچ میں آجانے کے بعد کی حیثیت دونوں یکساں ہوگی یا دونوں میں فرق ہوگا؟مسئلہ کی تنقیح کے لیے چند سوالات پیش ہیں: