خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ساقط ہوجائے گا اور اس نفلی حج بدل میں صرف اتنا کافی ہے کہ آپ احرام باندھتے وقت اپنے والد یا والدہ کی طرف سے حج بدل کی نیت کرلیں، بقیہ سب ارکان اسی طرح ادا کئے جائیںگے جیسے اپنے حج میں ادا کئے جاتے ہیں۔ فلا یجوز حج الغیر بغیر إذنہ إلا إذا حج أو أحج الوارث عن مورثہ أي، فیجزیہ إن شاء اللّٰہ تعالی، وہٰذا إذا لم یوص المورث۔ (الدرالمختار مع الشامي ۴؍۱۶ زکریا) نیۃ الحج عن المحجوج عنہ عند الإحرام أو تعیینہ قبل الشروع في الأعمال فلو قال بلسانہ: أحرمت عن فلان أو لبیک بحجۃ عن فلان فہو أفضل۔ (غنیۃ الناسک ۱۷۴) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۶؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہاپنا حج وعمرہ کرنے کے بعد والدین یا حضور کی طرف سے عمرہ کرنا؟ سوال(۲۰۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: عمرہ اور حج کرلینے کے بعد اب اپنے والدین یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عمرہ کرے تو کیا ثواب برابر مل سکتا ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟ اور ایک عمرہ میں کئی لوگوں کو ثواب پہنچایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور والدین وغیرہ کی طرف سے نفل حج وعمرہ کرنا نہ صرف جائز؛ بلکہ مستحسن ہے، نیز ایک عمرہ کا ثواب کئی لوگوں کو بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔ علامہ شامیؒ نے اس پر اچھی بحث کی ہے۔ (شامی ۲؍۲۴۳-۲۴۴ کراچی، ۳؍۱۵۳ زکریا) بخلاف ما لو أہل بحج عن أبویہ أو غیرہما من الأجانب حال کونہ متبرعاً فعین بعد ذٰلک جاز؛ لأنہ متبرع بالثواب، قال الشامي: فإذا أحرم بحجۃ عن إثنین أمرہ کل منہما بأن یحج عنہ وقع عنہ ولا یقدر علی جعلہ لأحدہما،