خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
سے وارث یا اجنبی شخص حج کرتا ہے، تو حج میت کی طرف سے ادا ہوگا، اگر کوئی شخص بذات خود اپنے ہی مال سے کسی عزیز یا دیگر شخص کی طرف سے حج بدل کرتا ہے، تو حج کرنے والے کو سات حجوں کا ثواب ملے گا اور جو شخص کسی دوسرے کے حکم سے میت کی طرف سے حج بدل کرے گا، تو اس حج کرنے والے کو اپنے عمل حج کا ثواب ملے گا، اور حج کے بعد زائد عمرے یا طواف کرے گا تو وہ خود اسی کے ہوںگے۔ (جواہر الفقہ۱؍ ۵۰۶، ایضاح المناسک؍ ۱۷۴) کما إذا کان میتاً وعلیہ حج الفرض ولم یوص بہ، أو أوصی بہ ولا مال، فإنہ لو تبرع عنہ الوارث، وکذا الأجنبی فحج عنہ، أو حج قال أبوحنیفۃ: یجزیہ انشاء اﷲ تعالیٰ عن حجۃ الإسلام۔ (غنیۃ ۳۲۲ إدارۃ القرآن کراچی) وعن ابن عباس رضی اﷲ عنہ مرفوعاً من حج عن أبیہ أو أمہ فقد قضا حجتہ، وکان لہ فضل عشر حجج۔ (سنن الدار قطني رقم: ۲۵۸۷) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ۷؍۶؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہبیوی کی طرف سے نفلی حج کرنا سوال(۲۱۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید اپنا حج کرچکا اور زید کی بیوی جس پر حج فرض نہیں تھا وہ انتقال کرچکی، اب زید دوبارہ عازم حج ہے اور چاہتا ہے کہ اس حج کو اپنی مرحومہ بیوی کی طرف سے کرے، تو یہ درست ہے یا نہیں، اور اس کا کیا طریقہ ہے؟ اور زید کو بھی کچھ ثواب ملے گا یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: بیوی کی طرف سے نفلی حج درست ہوجائے گا، اور اس شوہر کو بھی ثواب ملے گا، انشاء اللہ تعالیٰ۔ (مستفاد: جواہر الفقہ ۱؍۵۰۶، ایضاح المناسک ۱۷۴) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما مرفوعاً: من حج عن میت کتب للمیت