خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ ضرورت مند شخص مقروض ہے تو اسے یک مشت نصاب سے زائد رقم دینا بھی جائز ہے۔ ویکرہ لمن علیہ الزکاۃ أن یعطي فقیراً مائتي درہم … ہٰذا إذا أعطی مائتي درہم، ولیس علیہ ولا لہ عیال، فإن کان علیہ دین فلا بأس بأن یتصدق علیہ قدر دینہ وزیادۃ ما دون المائتین۔ (بدائع الصنائع / دفع الزکاۃ لمالک نصاب یخاف الحاجۃ ۲؍۱۶۰ نعیمیۃ دیوبند) فإن کان مدیوناً فدفع إلیہ مقدار ما لو قضی بہ دینہ لا یبقی لہ شيء أو یبقی دونہ المأتین لا بأس بہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸، الدر المختار مع الشامي / باب المصرف ۳؍۳۰۳ زکریا، مجمع الأنہر الزکاۃ / في بیان أحکام المصارف ۱؍۳۳۳ بیروت، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۱ رقم: ۴۱۸۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۹؍۱۴۱۷ھمستحق زکوٰۃ کو کاروبار کے لئے نصاب سے زائد رقم دینا؟ سوال(۲۴۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید، عمر، عبد اللہ صاحبِ نصاب ہیں اورزکوٰۃ ادا کرتے ہیں، ان کی زکوٰۃ کی رقومات تقریباً پچاس ہزار، ایک لاکھ، پانچ لاکھ کے قریب ہوتی ہے، جوکہ تقسیم کردی جاتی ہے؛ لیکن فی الوقت اپنی ہی قرابت دار مستحق زیادہ ہوتے جارہے ہیں، حالاںکہ یہ پہلے کبھی اس قدر زیادہ نہ تھا، زید عمر عبد اللہ کی خواہش ہے کہ زکوٰۃ کی ان رقومات سے مستحق لوگوں کو یہ رقم پوری پوری دے کر کاروبار کرادیا جائے؛ تاکہ آنے والے سالوں میں وہ خود مستحق زکوٰۃ نہ رہ کر صاحبِ نصاب ہوجائیں، اور خود زکوٰۃ ادا کرنے والے بن جائیں۔ براہِ کرم قرآن وحدیث کے دلائل سے جواباً مطلع فرمائیں؟