خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
إن فقراء بلدۃ أخری أکثر حاجۃ، فالصرف إلی فقراء بلدۃ أخری أولٰی۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۴، تحت رقم: ۴۱۸۹ زکریا) إلا إلی قرابۃ أو أحوج أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمین۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۳۰۴ زکریا) ویکرہ نقل الزکوٰۃ من بلد إلی بلد … إلا أن ینقلہا الإنسان إلی قرابتہ أو إلی قوم ہم أحوج من أہل بلدہٖ لما فیہ من الصلۃ أو زیادۃ دفع الحاجۃ۔ ( الفتاوی الہندیۃ ۱؍۲۰۸-۱۹۰دار الفکر بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۵؍۱۴۲۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہجن مدارس میں نادار غریب طلبہ ہوں وہاں زکوٰۃ کی رقم اور غلہ دینا جائز ہے؟ سوال(۲۵۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ وغیرہ مدرسہ میں لگ سکتی ہے یانہیں؟ پھر انشاء اﷲ ہم اپنے یہاں کا سب غلہ آپ کے مدرسہ میں دیا کریں گے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن مدارس میں نادار طلبہ مقیم رہتے ہیں وہاں زکوٰۃ کی رقم لگائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آپ چاہیں تو اپنا غلہ مدارس میں دے سکتے ہیں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] إن طالب العلم یجوز لہ أخذ الزکاۃ ولو غنیًّا إذا فرغ نفسہ لإفادۃ العلم واستفادتہ لعجزہ عن الکسب۔ (شامي ۳؍۲۸۶ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۸؍۱۰؍۱۴۲۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ