خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: أتی رجل من بني تمیم إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰہ! إذا أدیت الزکاۃ إلی رسولک فقد برئت منہا إلی اللّٰہ وإلی رسولہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نعم! إذا أدیت الزکاۃ إلی رسولي فقد برئتَ منہا، لک أجرہا وإثمہا علی من بدَّلہا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۴؍۱۶۴ رقم: ۷۲۸۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ولا یصرف إلی بناء نحو مسجد کبناء القناطیر السقایات وإصلاح الطرقات … وکل ما لا تملیک فیہ۔ (شامي ۲؍۳۴۴ کراچی، ۳؍۲۹۱ زکریا) ولا یجوز أن یبني بالزکاۃ المسجد، وکذا القناطر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) کما تستفاد من عبارۃ الدر: ولو خلط زکاۃ موکلیہ ضمن وکان متبرعاً۔ (درمختار ۲؍۲۶۹ کراچی، ۳؍۱۸۸ زکریا) سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ ہٰذا زکاۃ مالي، فادفعہا إلي فلان فدفعہا الوکیل إلی الآخر، ہل یضمن؟ قال نعم، ولہ التعیین۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۸ زکریا، البحر الرائق ۲؍۳۷۱) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۱۱؍۱۴۱۱ھسخت مجبوری میں زکوٰۃ، صدقات اور چرم کی رقم تملیک کے بعد مسجد ومدرسہ کی تعمیر میں لگانا؟ سوال(۳۰۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا زکوٰۃصدقۂ فطر اور چرم قربانی کی رقم تعمیر مسجد و عیدگاہ اور تعمیر مدرسہ میں صرف ہوسکتی ہے کہ نہیں؟ اگر صرف نہیں ہوسکتی تو ان رقومات کا ان مقامات میں صرف کرنے یا جائز سمجھنے والے کے بارے میںشرع کا کیا حکم ہے؟ ان سے کہا جاتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ تو کہتے ہیں کہ ہم نے بطور