خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الخانیۃ: وإن دفع أرضہ العشریۃ مزارعۃ إن کان البذر من قبل العامل فعلی قیاس قول أبي حنیفۃ یکون العشر علی صاحب الأرض کما في الإعارۃ، وعندہما في الزرع کما في الإجارۃ، وإن کان البذر من قبل صاحب الأرض کان العشر علی صاحب الأرض في قولہم۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۸۱ زکریا) وفي المزارعۃ إن کان البذر من دب الأرض فعلیہ، ولو من العامل فعلیہما بالحصۃ۔ (درمختار ۲؍۳۳۵ کراچی، ۳؍۲۷۸ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۱۰؍۱۴۱۳ھکیریاں (کچے آموں) کا عشر کس پر واجب ہے؟ سوال(۳۳۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کچے آموں کا استعمال (کیریاں) میں بھی ہوتا ہے، اس صورت میں عشر نکالنے کی کیا صورت ہوگی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورتِ مسئولہ میں اگر مشتری باغ خریدتے ہی کیریاں توڑلیتا ہے تو عشر بائع پر واجب ہوگا اور اگر پکنے کے بعد توڑتا ہے تو مشتری پر لازم ہوگا۔ قال في الہندیۃ: ولو باعہا والزرع بقل إن قصلہ المشتري في الحال یجب علی البائع، ولو ترکہ حتی أدرک فعشرہ علی المشتري۔ کذا في شرح الطحاوي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۷) إذا کان للرجل أرض عشریۃ فیہا زرع … وإذا کان الزرع بقلاً وباع الأرض مع البقل فأدرک الزرع فالعشر علی المشتري، ہٰذا إذا باع الأرض مع الزرع، فأما إذا باع الزرع دون الأرض، والزرع قصیل، فإن کان البیع بشرط أن