خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
البرء، لا یجوز النیابۃ عنہ۔ (غنیۃ الناسک / باب رمي الجمار ۱۸۷ إدارۃ القرآن کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۸؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ۱۲؍ تاریخ کو منی سے جلدی روانہ ہونے کے لئے عورت کی طرف سے رمی کرنا سوال(۱۴۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی شخص مغرب سے قبل منی چھوڑ نے کی غرض سے ۱۲؍ تاریخ کو رمی میں عورت کی نیابت کرے، جبکہ عورت کے ساتھ کوئی شرعی عذر لاحق نہ ہو تو یہ نیابت جائز ہے یانہیں؟ اگر جائز نہ ہوگی تو کوئی کفارہ ہوگا یانہیں؟ اگر ہوگا تو کیا ہوگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس عورت کو کوئی شرعی عذر لاحق نہ ہو اس کی طرف سے رمی میں نیابت جائز نہیں ، اگر اس نے اپنی رمی خود نہ کی تو ترک رمی کی وجہ سے ایک دم جنایت واجب ہے، اور یہ دم کبھی بھی حدود حرم میں ذبح کرایا جاسکتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ عورت وغیرہ کے لئے بارہ تاریخ کو مغرب کے بعد بھی رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے یہ نیابت کے لئے عذر نہیں بن سکتا۔ الرجل والمرأۃ في الرمي سواء إلا أن رمیــہا فــي اللیل أفضل، فلا تجوز النیابۃ عن المرأۃ بغیر عذر۔ (غنیۃ الناسک / باب رمي الجمار ۱۸۸ إدارۃ القرآن کراچی) فإن أخر الرمي فیہما إلی اللیل فرمی قبل طلوع الفجر جاز ولا شئ علیہ؛ لأن اللیل وقت الرمي في أیام الرمي لما روینا من الحدیث … أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن للرعاۃ أن یرموا باللیل۔ (طبرانی فی الکبیر رقم: ۱۱۳۷۹، مسند