خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
مصرف الزکاۃ ہو فقیر … وقیل: طلبۃ العلم … ویشترط أن یکون الصرف تملیکًا لا إباحۃ۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۳۸۳ زکریا، درمختار ۲؍۳۴۰ کراچی) فأما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا بأس بہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۴ زکریا، کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) ولا یصرف إلی بناء نحو مسجد (درمختار) کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۱۰؍۱۴۲۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہاِسکول کالج میں زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۶۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ جو مدارس میں دی جاتی ہے، کیا اس زکوٰۃ میں اسکول کالج وغیرہ بھی شامل ہوسکتے ہیں؟ چوںکہ مدارس کا کام بھی مذہبی معلومات کی غرض سے مسلم قوم کے لئے ضروری ہے، اور اسکول کالج وغیرہ بھی ایک تعلیمی مرکز ہے جوکہ مسلم قوم کا مستقبل بناتا ہے، تو اس طرح اسکول وکالج میں بھی زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ فقراء کا حق ہے، اور عام طور پر اسکول اور کالج میں تعلیم پانے والے فقراء نہیں ہوتے اور نہ ہی وہاں طلبہ پر تملیکاً زکوٰۃ خرچ ہوتی ہے؛ بلکہ فیس لے کر تعلیم دی جاتی ہے، جب کہ دینی مدارس میں طلبہ کی اکثریت غریب طبقہ سے تعلق رکھتی ہے، نیز وہاں غیر مستطیع نادار طلبہ پر یہ زکوٰۃ خرچ کی جاتی ہے؛ لہٰذا مصرف پائے جانے کی وجہ سے مدارس میں زکوٰۃ دینا جائز ہے، اور کالج اور اسکولوں میں دینا جائز نہیں ہے۔