خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی ایسا شخص جس پر حج فرض نہ تھا وہ رمضان میں عمرہ کرنے گیا، پھر عید کے بعد شوال کے مہینہ میں اس نے مکہ معظمہ جاکر عمرہ کرلیا، تو اس بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس کے پاس حج کے ایام تک قیام کے مصارف واسباب مہیا ہیں، تو اس پر حج کرنا فرض ہوگا اور اگر اتنے مصارف نہیں ہیں تو اس پر حج فرض نہ ہوگا۔ اور اگر حج تک رکنے کے مصارف تو ہیں؛ لیکن حکومت کی طرف سے اجازت نہ ہونے کی بنا پر رکنا مشکل ہے، تو ایسی صورت میں بعض مفتیان کرام نے حج کی فرضیت کا قول کیا ہے۔ (دیکھئے: احسن الفتاویٰ ۴؍۵۲۹) اور جو شخص اپنا حج فرض پہلے کرچکا ہے اس پر شوال میں عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوتا، اس کا مذکورہ مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مستفاد: والحاصل أن الزاد لا بد منہ ولو لمکی کما صرح بہ غیر واحد کصاحب الینابیع والسراج الخ، الفقیر الاٰفاقی إذا وصل إلی میقات فہو کالمکی۔ قال شارحہ: أي حیث لا یشترط في حقہ إلا الزاد و(لا) الراحلۃ۔ (شامي ۴؍۴۵۸-۴۵۹ زکریا، زبدۃ المناسک ۲۱، کما أفادہ في غنیۃ الناسک بحثاً ۳۳۸-۳۳۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۳؍۱۴۳۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہکیا نفلی عمرہ کرنے سے حج فرض ہوجائے گا؟ سوال(۲۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میرا یہ عمرہ محض نفلی ہے، واجب یا منذور نہیں ہے، بس دل میں اﷲ کا گھر دیکھنے کی تمنا ہے اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربار روضۂ اقدس پر حاضری کی آرزو ہے، زادِ راہ بھی بھائیوں نے اپنی خوشی سے مہیا کرنے کی امید دلائی ہے، تو کیا بعد میں حج کرنا میرے لئے ضروری ہوگا؟ جب کہ حج اور عمرہ کے زادِ راہ پر بندہ کو از خود استطاعت آج ہے اور نہ کل ہونے کی امید ہے۔