خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قرض دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرنا اور واپسی پر دوسرے کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۴۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے پاس کوئی شخص قرض لینے آیا ہم نے اس کو اپنے پاس زکوٰۃ نکلی ہوئی رقم میں سے قرض دے دیا، اور یہ نیت کرلی کہ جب یہ ادا کرے گا تو پھر ہم زکوٰۃ کے مستحق کو دے دیںگے، نہیں تو یہ اسی کو زکوٰۃ دے دی، تو کیا وہ زکوٰۃ ادا ہوگئی، آپ ہمیں کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں اگر قرض دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کی جائے اور یہ ارادہ ہو کہ اس سے یہ رقم کبھی واپس نہیں لینی ہے ، تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اگر یہ نیت کی کہ اگر واپس کرے گا تو دوسری جگہ صرف کردوںگا، جیسا کہ سوال نامہ میں لکھا گیا ہے، اس طرح دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ نوی الزکاۃ إلا أنہ سماہ قرضا جاز في الأصح؛ لأن العبرۃ للقلب لا اللسان الخ۔ (درمختار / کتاب الخنثی ۱۰؍۴۵۵ زکریا) ویشترط أن یکون الصرف تملیکا۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا) ومن أعطی مسکینا دراہم وسماہا ہبۃ، أو قرضاً ونوی الزکاۃ، فإنہ تجزیہ وہو الأصح۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۱) ولا یشرط علم الفقر أنہا زکاۃ علی الأصح حتی لو أعطاہ شیئاً وسماہ ہبۃ أو قرضاً ونوی بہ الزکاۃ صحت۔ (مراقي الفلاح ۳۹۰، مجمع الأنہر ۱؍۱۹۶، البحر الرائق ۲؍۳۷۰ زکریا)