خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
۲؍۲۱۷ المکتبۃ الشاملۃ، أحسن الفتاوی ۴؍۲۹۲) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۱۱؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہخدمت کے عوض میں زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۱۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: خانقاہ میں طالب علم سے ایک مہینہ خدمت لے کر ان کو زکوٰۃ کے روپئے سے ہدیہ دینا درست ہے یانہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: خدمت کے عوض میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں، مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم بلاعوض دینی چاہئے ۔ ولا یعطي أجر الجزار إلی آخرہ۔ (ہدایۃ ۴؍۴۵۰ مکتبہ بلال دیوبند، البحر الرائق ۸؍۱۷۸ کراچی) ولو دفعہا المعلم لخلیفتہ إن کان بحیث یعمل لو لم یعطہ صح وإلا (وتحتہ في الشامیۃ) قولہ: إلا لا، أي لأن المدفوع یکون بمنزلۃ العوض۔ (شامي ۲؍۳۵۶ کراچی) سئل عن معلم لہ خلیفۃ في المکتب یعلم الصبیان ویحفظہم ویکتب ألواحہم ولم یستأجرہ بشیٔ معلوم، وما اشترط شیئا والمعلم یعطیہ في الأحایین دراہم بنیۃ الزکاۃ ہل یجوز عن الزکاۃ؟ قال: نعم: إلا أن یکون بحیث لو لم یعطہ لم یعمل لہ ذلک في مکتبہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ / کتاب الزکاۃ ۲؍۲۰۹-۲۱۰ قدیم، مسائل بہشتی زیور ۳۲۴) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۳؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ