خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
۱؍۳۲۳، مشکوۃ المصابیح ۱۷۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ تعالی قد فرض علیہم زکاۃ تؤخذ من أموالہم وترد علی فقرائہم۔ (صحیح البخاري ۱؍۱۹۶، صحیح مسلم ۱؍۳۶، مشکوۃ المصابیح ۱؍۱۵۵) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۱؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہبرادری کی زکوٰۃ برادری ہی پر خرچ کرنا؟ سوال(۲۲۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی قوم نے اپنی ایک جماعت بنائی ہے، وہ وہاں اپنی زکوٰۃ جمع کرتے ہیں، یعنی اکٹھا کرتے ہیں، پھر وہ زکوٰۃ صرف اپنی ہی قوم کو دیتے ہیں، جیسے پڑھائی کا خرچہ ہو، اسکول کا خرچہ ہو، یا کسی بیماری میں دینا ہو، تو وہ دوسری قوم کے لوگوں کو یہ کہہ کر لوٹادیتے ہیں، یہ صرف ہماری برادری کے لئے ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں تسلی بخش جواب سے نوازیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں کسی کی زکوٰۃ اس کے خاندان یا برادری کے لئے مخصوص نہیں ہے؛ بلکہ ہر مسلمان محتاج ضرورت مند مستحق زکوٰۃ کا اس میں حق ہوتا ہے، اس لئے زکوٰۃ کو برادری کی حدود میں منحصر کردینا اور لاکھوں کروڑوں کی زکوٰۃ کی رقومات جمع کرکے ایک ہی برادری کی ترقی پر خرچ کرنا اسلامی نظام زکوٰۃ کی روح کے خلاف ہے، اس طریقہ کو چھوڑکر ضرورت اور استحقاق کو سامنے رکھتے ہوئے بلاکسی تخصیص کے وسعت ظرفی کے ساتھ مستحقین پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی چاہئے؛ تاہم اگر کوئی برادری اپنی زکوٰۃ جمع کرکے برادری کے نادار اور محتاج لوگوں پر خرچ کرے تو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، بشرطیکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی تمام شرائط کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔