خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
بالإیتاء للفقیر، وہو عبارۃ عن التملیک من الفقیر، ولم یوجد۔ (الفتاویٰ الولوالجیۃ، الزکاۃ / فیما یقع عن الزکاۃ وفیما لا یقع إلی آخرہ ۱؍۱۸۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۷؍۹؍۱۴۱۳ھزکوٰۃ کے پیسہ سے مسجد کا سامان خریدنا؟ سوال(۳۱۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: صدقہ وزکوٰۃ کے روپئے سے مسجد کے لئے نل، غسل خانہ کی بالٹی اور وضو کے لوٹے خرید سکتا ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: صدقاتِ واجبہ اور زکوٰۃ کی رقم مسجد کے کسی کام میں نہیں لگائی جاسکتی، اس میں صرف امداد ہی کا پیسہ لگانا چاہئے۔ أما رکنہ فہو: التملیک لقولہ تعالیٰ: {وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ} [الأعراف: ۱۴۱] والإیتاء: ہو التملیک لقولہ تعالیٰ: {وَاٰتُوْا الزَّکَاۃَ} فلا تتأدی بطعام الإباحۃ وبما لیس بتملیک رأساً من بناء المساجد ونحو ذٰلک، وبما لیس بتملیک من کل وجہ۔ (بدائع الصنائع / ما یسقط بعد الوجوب ۲؍۱۸۹ زکریا) وعلی ہٰذا یخرج صرف الزکاۃ إلی وجوہ البر من بناء المساجد … أنہ لا یجوز؛ لأنہ لم یوجد التملیک أصلاً۔ (بدائع الصنائع / رکن الزکاۃ ۲؍۱۴۲زکریا، مجمع الأنہر ۱؍۲۲۲ دار إحیاء التراث العربي بیروت، البحر الرائق ۲؍۲۴۳ کوئٹہ) قال - رحمہ اللّٰہ -: ’’وبناء مسجد‘‘ أي لا یجوز أن یبنی بالزکاۃ السمجد؛ لأن التملیک شرط فیہا ولم یوجد، وکذا لا یُبنی بہا القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق / باب المصرف ۲؍۱۲۰، وفي الشاملۃ ۱؍۳۰۰)