خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
فأخرجت الأرض خمسۃ أوسق ففیہا العشر، وإن کان البذرُ بینہما نصفین فلا عشر فیہا إلا أن یبلغ نصیب کل واحد منہما خمسۃ أوسق۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۸۱ رقم: ۴۳۷۵ زکریا) وإن کانت الأرض مشترکۃ بین جماعۃ فأخرجت طعاماً فعلی قول محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: یعشر إن بلغ نصیب کل واحد منہم خمسۃ أوسق کما بینا في السوائم۔ (کتاب المبسوط للسرخسي / باب عشر الأرضین ۲؍۴۳۷ دار الفکر بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۱۱؍۱۴۳۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہزرعی زمین کی پیداوار کا چالیسواں حصہ نکالنا؟ سوال(۳۲۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص نے زرعی زمین کی پیداوار کا چالیسواں حصہ اپنی ضروریات سے بچے ہوئے مال پر سال کے آخر میں ادا کیا، کیا اس کا یہ عمل شرعی اعتبار سے درست ہے؟ جب کہ زمین عشری نہیں ہے؟ (۲) ایک شخص نے اپنی سالانہ آمدنی میں جائیداد کے کرایہ اور زرعی زمین کی پیداوار کا کل حساب کرکے سال کے آخر میں جو رقم اس کے پاس بچی اس کا چالیسواں حصہ بمد زکوٰۃ ادا کیا، تو کیا یہ عمل کافی ہوگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اگر مذکورہ زمین عشری یا خراجی نہیں ہے (جیساکہ آج کل ہندوستان کی اکثر زمینوں کا حال ہے) تو اس کی پیداوار میں عشر یا خراج واجب نہیں ہے؛ بلکہ اس حاصل شدہ آمدنی میں مالِ زکوٰۃ کا ضابطہ جاری ہوگا، اور چالیسواں حصہ زکوٰۃ نکالنا فرض ہوگا؛ لہٰذا مذکورہ شخص کا یہ عمل درست ہے۔ (مستفاد: ایضاح النوادر ۱۷، فتاویٰ محمودیہ ۳؍۴۵) (۲) یہ عمل بھی درست ہے۔ (مستفاد: ایضاح المسائل ۱۰۵، فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۱۱۵)