خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
۲؍۵۵۹ زکریا، تبیین الحقائق ۲؍۲۴۸)اہلِ حرم کی میقات: اہل حرم اگر حج کا ارادہ کریں تو پورا دائرۂ حرم ان کے لئے میقات ہے، اور اگر عمرہ کا ارادہ کریں تو حدودِ حل مثلاً تنعیم وغیرہ میں جاکر احرام باندھنا ضروری ہوگا۔ وأما میقات أہل الحرم …، فالحرم للحج فیحرمون من دورہم ومن المسجد أفضل، وجاز تاخیرہ إلی اٰخر الحرم والحل للعمرۃ، والأفضل إحرامہما من التنعیم من معتمر عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا۔ (غنیۃ الناسک ۵۷-۵۸، درمختار ۳؍۴۸۴ زکریا، البحر الرائق ۲؍۵۶۰ زکریا، تبیین الحقائق ۲؍۲۴۸) نوٹ:- جو حجاج حج تمتع کا عمرہ کرنے کے بعد مکہ معظمہ میں مقیم رہتے ہیں، وہ اہل حرم کے حکم میں ہیں؛ لہٰذا وہ حج کا احرام اپنے کمروں سے باندھیںگے، اور مسجدِ حرام میں جاکر احرام کی نیت کریں تو فضیلت زیادہ ہوگی۔ وکذٰلک أي مثل حکم أہل الحرم کل من دخل الحرم من غیر العلۃ، وإن لم ینو الإقامۃ بہ کالمفرد بالعمرۃ والمتمتع أي من أہل الاٰفاق۔ (مناسک کبیر ۸۳، شامي ۳؍۴۸۴ زکریا، البحر الرائق ۲؍۳۱۹ زکریا)میقات کی حکمت: شاہی دربار میں حاضری کے کچھ آداب اور ضوابط ہوتے ہیں، اسی اعتبار سے احکم الحاکمین رب العالمین کے دربار میں حاضری کے آداب بھی مقرر ہیں۔ میقات کی پابندیاں اسی قبیل سے ہیں کہ جو شخص باہر سے دربارِ خداوندی میں حاضری کے ارادہ سے اندر آئے، اس کے لئے میقات پر پہنچتے ہی احرام کی پابندی لازم ہے، اور احرام کی حالت کمال عاجزی کی حالت ہے، جس میں آدمی اپنی سب شان وشوکت کو اتارکر ایک عاجز بندے کی شکل میں ننگے سر اور کھلے پاؤں حاضر ہوتا