خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن ابن عمر وابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الرجل ینفق علی ثمرتہ فقال أحدہما: یزکیہا، وقال الآخر: یرفع النفقۃ ویزکي ما بقي۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۶؍۴۵۶ رقم: ۱۰۱۹۲ المجلس العلمي) وکل شيء أخرجتہ الأرض مما فیہ العشر لا یحتسب فیہ أجرۃ العمال ونفقۃ البقر، وفي الینابیع: ولا یحتسب لصاحب الأرض ما أنفق علی الغلّۃ من سقي، أو عمارۃ أو أجرۃ حافظ؛ بل یجب العشر في جمیع الخارج۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۷۷ زکریا، المحیط البرہاني ۳؍۲۹۰، ومثلہ في البدائع الصنائع ۲؍۱۸۵) بلا رفع مؤن أي کلف الزرع وبلا إخراج البذر لتصریحہم بالعشر في کل الخارج۔ (درمختار ۳؍۲۶۹-۲۷۰ زکریا) وکل شيء أخرجتہ الأرض مما فیہ العشر لایحتسب فیہ أجر العمال ونفقۃ البقر۔ (ہدایۃ / زکاۃ الزروع والثمار ۱؍۲۰۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۶؍۱۴۱۱ھعشری زمین میں کل پیداوار سے عشر نکالا جائے گا سوال(۳۳۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا عشری زمین کا عشر نکالتے وقت کاشت پر جو اخراجات آئے ہیں وہ وضع ہوںگے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اولاً یہ واضح رہنا چاہئے کہ موجودہ دور میں ہندوستانی زمین عشری یا خراجی نہیں ہے؛ لہٰذا ان کی پیداوار میں عشر یا خراج واجب نہ ہوگا۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۳؍۴۵-۴۶) اب مطلقاً عشری زمینوں کے بارے میں نفس مسئلہ کے طور پر سوال کا جواب ذیل میں تحریر کیا جاتا ہے: