خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
آفاقی شخص کا اپنی ذاتی ضرورت سے حدودِ حل میں داخل ہونا؟ سوال(۵۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر ہندوستان کا باشندہ مثلاً اپنی کسی ذاتی ضرورت یا کاروباری کام سے جدہ گیا، تو کیا اس پر بھی احرام باندھنا ضروری ہوگا؟ جب کہ اس کا حج یا عمرہ کا ارادہ نہیں ہے؟ اور اگر جدہ پہنچ کر مکہ معظمہ جانے کا ارادہ بن گیا، تو اب کیا حکم ہے؟ احرام باندھ کر ہی مکہ معظمہ جائے گا یا بغیر احرام بھی جاسکتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آفاقی شخص حدودِ حل میں جانے کا ارادہ کرے، تو اس پر احرام باندھنا لازم نہیں ہے، مثلاً ہندوستان کا کوئی شخص اپنی ضرورت سے جدہ جانا چاہتا ہے، تو اس کے لئے احرام باندھ کر جانے کا حکم نہیں ہے۔ اور اگر آفاقی شخص اپنے کسی کام سے جدہ گیا، پھر وہاں جاکر ارادہ ہوا کہ مکہ معظمہ بھی حاضری دے دیں، تو اس کے لئے احرام باندھ کر مکہ جانا لازم نہیں؛ بلکہ بلااحرام جاسکتا ہے؛ لیکن اگر عمرہ یا حج کا ارادہ ہو تو احرام باندھنا ہوگا۔ عن طاؤس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یدخل مکۃ قطُّ إلا محرمًا إلا یومَ فتح مکۃ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۲۲۸ رقم: ۱۳۶۹۷ المجلس العلمي) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: لا یدخل مکۃ أحدٌ بغیر إحرام إلا الحطابون والعمّالون وأصحاب منافعہا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۲۲۷ رقم: ۱۳۶۹۱ المجلس العلمي) أما لو قصد موضعاً من الحل کخلیص وجدہ حل لہ مجاوزتہ بلا إحرام۔ (درمختار ۳؍۴۸۲ زکریا، ومثلہ في البحر الرائق ۳؍۴۹ کراچی، الدر المنتقی ۱؍۳۹۳) ومن جاوز وقتہ یقصد مکاناً في الحل، ثم بدأ لہ أن یدخل مکۃ فلہ أن یدخلہا بلا إحرام۔ (البحر الرائق ۳؍۴۹ کراچی، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۵۵۳، منحۃ الخالق