خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الصنائع ۲؍ ۳۲۵، انوار مناسک ۴۸۸-۴۹۲ میں بھی اس مسئلہ کی تفصیل ہے) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۸؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہمنیٰ میں ۲۴ ؍گھنٹہ رمی کے بارے میں چسپاں کئے گئے اشتہارات کا کیا حکم ہے؟ سوال(۱۵۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حکومت کی طرف سے جگہ جگہ اشتہارات چسپاں کئے گئے ہیں، جن پر لکھا ہے کہ چوبیس گھنٹہ رمی کی جاسکتی ہے۔ مفتی بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ اس اعلان کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے، یہاں پر بھی مجھ ناچیز کی یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ وہاں کے ذمہ داران کے اعلانات اور احکامات کی پابندی ہم عام حاجیوں پر لازمی اور ضروری کیوں نہیں ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے دن یعنی یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) میں فی الجملہ رمی کا وقت ۲۴؍گھنٹہ ہے؛ لیکن ۱۱-۱۲؍تاریخ کو یہ وقت زوال سے شروع ہوتا ہے، اور اگلے دن کی صبح صادق تک رہتا ہے؛ لہٰذا اِن دنوں میں ۲۴؍گھنٹہ رمی کرنے کی بات بے دلیل ہے، اور جن اعلانات کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، یہ معلمین اپنے طور پر اپنی سہولت کے لئے چھاپتے رہتے ہیں؛ لیکن جب مسئلہ سعودی علماء اور وہاں کے دارالافتاء سے پوچھا جائے، تو وہ یہی بتاتے ہیں کہ زوال کے بعد ہی رمی کی جائے گی، اس لئے ان اعلانات کو سعودی حکومت کا اعلان سمجھنا صحیح نہیں، اور اگر بالفرض یہ اعلان حکومت ہی کی طرف سے ہو، تب بھی حنفیہ کے لئے اس کی پابندی جائز نہیں؛ کیوںکہ ہمارے مسلک کے راجح قول میں ۱۱-۱۲؍ذی الحجہ کو زوال سے پہلے رمی کی اجازت نہیں، اگر کوئی حاجی زوال سے قبل رمی کرلے، اور بعد میں وقت کے اندر نہ دہرائے، تو اس پر ترکِ رمی کی وجہ سے دم لازم ہوگا، حجاج کو یہ مسئلہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے۔ (مستفاد: کتاب المسائل ۳؍۳۴۹، انوار