خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وأخرج مسلم عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ یذکر أنہ سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فیما سقت الأنہار والغیم العشور وفیما سقي بالسانیۃ نصف العشر۔ (صحیح مسلم ۱؍۳۱۶، سنن ابن ماجۃ ۱؍۱۳۰) وفي المحیط: وما سقتہ السماء أو سقي سیحا ففیہ العشر، وما سقي بغرب أو دالیۃ أو سانیۃ ففیہ نصف العشر، وإذا سقي في بعض السنۃ سیحا وفي بعضہا بآلۃ فالمعتبر ہو الأغلب۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۷۷ رقم: ۴۳۵۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری ۱۰؍۲؍۱۴۳۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہپیداوار کی زکوٰۃ کا مصرف کیا ہے؟ سوال(۳۲۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: یہ غلہ مال کی زکوٰۃ کی طرح مستحقین کو مالک بناکر دینا ضروری ہے، یا دیگر صدقۂ نافلہ کے مصارف مثلاً مسجد ومدرسہ کی تعمیر اور مکاتب کے اساتذہ کی تنخواہ میں اس کی رقم دی جاسکتی ہے؟ غلہ کی زکوٰۃ سے متعلق جو اہم اور بنیادی امور ہوں ان کو بھی تحریر فرمائیں، نوازش ہوگی۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:پیداوار کی زکوٰۃ کا مصرف عام زکوٰۃ کی طرح ہے؛ لہٰذا اسے بھی کسی مستحق زکوٰۃ کو مالک بناکر دینا ضروری ہوگا۔ صدقاتِ نافلہ کے مصارف میں اس رقم کو خرچ کرنا صحیح نہیں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] الزکاۃ ہي تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر۔ (شامي ۳؍۱۷۲ زکریا) ومصرف الجزیۃ والخراج … مصالحنا۔ (درمختار) وفي الشامیۃ: قید بالخراج؛ لأن العشر مصرفہ مصرف الزکاۃ کما مر۔ (درمختار مع الشامي ۶؍۳۴۸ زکریا)