خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۱۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا چچا ماموں، خالہ اور پھوپھی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:چچا، ماموں، خالہ اور پھوپھی وغیرہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، اور ان لوگوں کو زکوٰۃ دینے میں دو ثواب ملتے ہیں، صلہ رحمی کا اور اداء زکوٰۃ کا۔ عن سلمان ابن عامر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن الصدقۃ علی المسکین صدقۃ، و علی ذي الرحم اثنتان: صدقۃ وصلۃ۔ (سنن النسائي / باب الصدقۃ علی الأقارب ۱؍۱۷۸ رقم: ۲۵۷۸، سنن الترمذي / باب ما جاء في الصدقۃ علی ذي القرابۃ ۱؍۱۴۲ رقم: ۶۵۳، شعب الإیمان ۳؍۲۳۸، المنصف ابن أبي شیبۃ ۶؍۵۴۵) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان إذا بعث السعاۃ علی الصدقات أمرہم بما أخذوا من الصدقات أن یجعل في ذوي قرابۃ من أحد منہم الأول فالأول، فإن لم یکن لہ قرابۃ، فالأولیٰ العشیرۃ، ثم لذوي الحاجۃ من الجیران وغیرہم۔ (المعجم الأوسط ۵؍۱۲۸ رقم: ۶۸۰۵، مجمع الزوائد / باب تفرقۃ الصدقات ۳؍۸۷) ویبدأ في الصدقات بالأقارب ثم الموالي ثم الجیران، وذکر الزندویستي: الأفضل صرف الزکاتین یعني صدقۃ الفطر وزکاۃ المال إلی أحد ہٰؤلاء السبعۃ الأول: إخوتہ الفقراء وأخواتہ ثم إلی أولادہم، ثم إلی أعمامہ الفقراء، ثم إلی أخوالہ وخالتہ، ثم ذوي الأرحام الفقراء، ثم إلی جیرانہ الخ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۵-۲۰۶ رقم: ۱۴۳۶ زکریا) ولا إلی من بینہما ولاد، قید بالولاد لجوازہ لبقیۃ الأقارب کالإخوۃ