خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کہ: ہماری ایک دینی بہن حج کو جارہی ہیں اور ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ اپنا کچھ ضرورت کا سامان خرید سکے اور وہ بیوہ ہیں، تو کیا ہم ان کو زکوٰۃ کا پیسہ دے سکتے ہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ اس شخص کو دی جاتی ہے جو مستحق زکوٰۃ ہو، اور جو عورت حج کو جارہی ہے اور اس کے پاس سفر حج کا انتظام بھی ہے، وہ مستحق زکوٰۃ کیسے ہوسکتی ہے؟ اور ضرورت کا سامان سفر حج میں خریدکر لانا کوئی ضروری بھی نہیں، اس لئے ایسی عورت کی زکوٰۃ کے ذریعہ امداد نہ کی جائے، اگر آپ کی خوشی ہو تو زکوٰۃ کے علاوہ رقم اسے بطور ہدیہ دے دیں۔ (فتاویٰ محمودیہ ۹؍۵۶۶ ڈابھیل) قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني، ولا ذي مرۃ سوي۔ (سنن الترمذي / باب ما جاء من لاتحل لہ الصدقۃ ۱؍۱۴۱ رقم: ۴۴۷) وأما الذي یرجع إلی المؤدي إلیہ فأنواع: منہا: أن یکون فقیرًا فلا یجوز صرف الزکاۃ إلی الغني إلا أن یکون عاملاً علیہا لقولہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} جعل اللّٰہ تعالیٰ الصدقات للأصناف المذکورین بحرف اللام، وأنہ للاختصاص، فلو جاز صرفہا إلی غیرہم لبطل الاختصاص، وہٰذا لا یجوز۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۵۰ نعیمیۃ دیوبند، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۹ زکریا) ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیۃ من أي مال کان۔ (درمختار مع الشامي ۴؍۴۹۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۱۱؍۱۴۳۲ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہتبلیغی اجتماعات میں زکوٰۃ کا پیسہ خرچ کرنا سوال(۲۰۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے