خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
بغیر تحقیق کے غیر مستحق کو دی گئی زکوٰۃ کا حکم سوال(۱۸۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص اپنی زکوٰۃ دیتے وقت لینے والوں سے تحقیق نہیں کرتا کہ لینے والا زکوٰۃ کا مستحق ہے یانہیں؟ تو ایسی صورت میں اگر غیر مستحق کو زکوٰۃ دے دی جائے، تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی یانہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جسے زکوٰۃ دی جارہی ہے اس کو زکوٰۃ دیتے وقت غالب گمان یہ ہے کہ وہ مستحق ہے، تو دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، پھر بھی احتیاط یہ ہے کہ دینے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کرلی جائے۔ دفع بتحر لمن یظنہ مصرفاً فبان أنہ عبدہ أو مکاتبہ، أو حربي، ولو مستأمنا أعادہا، وإن بان غناہ أو کونہ ذمیا أو أنہ أبوہ أو ابنہ أو امرأتہ أو ہاشمي لایعید؛ لأنہ أتی بما في وسعہ حتی لو دفع بلا تحرلم یجز إن أخطأ۔ (درمختار) وفي الشامیۃ: واعلم أں المدفوع إلیہ لو کان جالسًا في صف الفقراء یصنع صنعہم أو کان علیہ زیہم أو سألہ فأعطاہ کانت ہٰذہ الأسباب بمنزلۃ التحري، وکذا في المبسوط حتی لو ظہر غناہ لم یعد۔ (درمختار مع الشامي / باب المصرف ۳؍۳۰۲-۳۰۳ زکریا، مراقي الفلاح / باب المصرف ۳۹۳ کراچي) وإذا دفعہا إلیہ وہو شاک ولم یتحر، أو تحری ولم یظہر لہ أنہ مصرف، أو غلب علی ظنہ أنہ لیس بمصرف، فہو علی الفساد، إلا إذا تبین أنہ مصرف، ہٰکذا في التبیین۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰، فتح القدیر ۲؍۲۷۵) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ