خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
انجام دے رہے ہیں، مکتب میں اس وقت تقریباً ۳۰۰؍بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، امدادکی رقم سے اس مدرسہ کو اب تک چلایا جاتا رہا ہے؛ لیکن علاقہ کی خاصی بے توجہی کی وجہ سے مدرسین کی تنخواہ پوری کرنا مشکل ہورہا ہے؛ لہٰذا ایسی صورت میں مکتب کے لئے زکوٰۃ کی رقم تنخواہ میں استعمال کرنے کے لئے شریعتِ مطہرہ میں کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں زکوٰۃ کی رقم کی تملیک کرکے مدرسوں کی تنخواہوں میں خرچ کرنا ضرورۃً جائز ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۱۰۴) عن أبي سعید الخدري قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تحل الصدقۃ لغني … أو جار فقیر یتصدق علیہ فیہدي لک أو یدعوک۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۱۳۲ رقم: ۱۸۴۱) وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی الفقیر، ثم ہو یکفن فیکون الثواب لہما، وکذا في تعمیر المسجد۔ (شامي ۳؍۱۹۱ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہکیا زکوٰۃ کی رقم تعمیر میں لگانے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی؟ سوال(۳۰۵):- اگر زکوٰۃ کا روپیہ بغیر تملیک کے تعمیر میں لگادیا گیا، تو زکوٰۃ دہندہ کی زکوٰۃ ادا ہونے او رتعمیر کے صحیح ہونے کی کیا صورت ہوگی؟ کیا تعمیر میں زکوٰۃ کی رقم لگانے سے زکوٰۃ دہندہ کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی رقم تعمیر میں لگانے سے معطیین کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اور اس رقم کو تعمیر پر خرچ کرنے والے لوگ صرف شدہ رقمِ زکوٰۃ کے ضامن ہوںگے۔ (فتاویٰ محمودیہ ۹؍۵۷۰ ڈابھیل)