خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
جامع الفتاویٰ لا یسعہ ذٰلک۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۰؍۳۱۱ رقم: ۱۴۸۴۵ زکریا، الفتاوی الہندیۃ ۶؍۳۹۰دار الفکر بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۷؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہجن مدارس میں صرف مقامی طلبہ پڑھتے ہوں اُن میں زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۵۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: وہ دینی مدارس جن میں مقامی طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، باہری بچوں کے قیام وطعام کا نظم نہیں ہے، کیا ان مدارس میں زکوٰۃ کی رقم کو تملیک کی صورت میں بدل کر استعمال کرسکتے ہیں؟ اسی طرح اس مدرسہ میں غریب ونادار طلبہ بھی ہیں جن کو زکوٰۃ کی رقم دیدیجائے اور پھر ان سے فیس کے نام پر جمع کرالیا جائے، یا ان بچوں کی کتب ،کپڑوں وغیرہ کا انتظام کردیا جائے تو یہ درست ہے؟ واضح فرمائیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے؛ اس لئے جن مدارس میں زکوٰۃکا مصرف موجود ہے، اُن کے لئے زکوٰۃ لینا درست ہے اور جہاں مصرف موجود نہیں ہے، اُن کے لئے زکوٰۃ لینا اور پھر حیلۂ تملیک کرنا درست نہیں۔ مسئولہ صورت میں اگر غریب ونادار طلبہ کو زکوٰۃ کی رقم کا واقعۃً مالک بنادیا جائے تو اس سے بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ (مستفاد: فتاویٰ رحیمیہ ۸؍۲۳۱، فتاوی دارالعلوم ۶؍۲۱۵، ایضاح النوادر ۲؍۴۸) ویشترط أن یکون الصرف تملیکا۔ (درمختار ۲؍۳۴۴ کراچی، مجمع الأنہر ۱؍۲۸۴بیروت، البحر الرائق ۲؍۴۱۹کراچی) ورکن الزکاۃ: ہو إخراج جزء من النصاب إلی اللّٰہ تعالی، وتسلیم ذلک إلیہ، یقطع المالک یدہ عنہ بتملیکہ من الفقیر وتسلیمہ إلیہ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۴۲ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۱۱؍۱۴۲۶ھ