خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
أکل تمر خیبر ہٰکذا؟ قال: لا واللّٰہ یا رسول اللّٰہ! إنا لنأخذ الصاع من ہٰذا بالصاعین والصاعین بالثلث، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فلا تفعل! بع الجمع بالدراہم ثم ابتع بالدراہم جنیبًا۔ (صحیح مسلم ۲؍۲۶) وأخرج البخاري حدیثًا طویلاً طرفہ: فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہو لہا صدقۃ ولنا ہدیۃ۔ (صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ / باب الصدقۃ علی موالي أزواج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۱؍۲۰۲ رقم: ۴۱۷۱ ف: ۴۱۹۳) والحیلۃ لمن أراد ذٰلک أن یتصدق ینوي الزکاۃ علی فقیر، ثم یأمرہ بعد ذٰلک بالصرف إلی ہٰذہ الوجوہ فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذٰلک الفقیر ثواب ہٰذا الصرف۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۸ رقم: ۴۱۴۱ زکریا) والحق أنہ کان ذلک لغرض صحیح فیہ رفق للمعذور، ولیس فیہ إبطال لحق الغیر فلا بأس بہ من ذٰلک کما في قولہ تعالی: {وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہٖ وَلَا تَحْنَثْ} وإن کان لغرض فاسد کإسقاط حق الفقراء من الزکاۃ بتملیک مالہ قبل الحول لولدہ أو نحو ذلک فہو حرام أو مکروہ۔ (عمدۃ القاري ۹؍۱۰) إن کل حیلۃ یحتال بہا الرجل لإبطال حق الغیر أو لإدخال شبہۃ فیہ أو لتمویہ باطل، فہي مکروہۃ، وکل حیلۃ یحتال بہا الرجل لیتخلص بہا عن حرام أو لیتوصل بہا إلی حلال فہي حسنۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ ۶؍۳۹۰دار الفکر بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۶؍۱۴۳۲ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہجہاں تملیک شرعی پائے جائے وہاں زکوٰۃ دینے سے ادا ہوجاتی ہے سوال(۲۷۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جن مدارس عربیہ میں زکوٰۃ، فطرہ، چرم قربانی وعقیقہ وغیرہ تملیک کرکے کئے جاتے ہوں، تو