خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کوئی شخص سواری پر طواف کرے، تو اس کا طواف بلا شبہ درست ہوجاتا ہے، اور اس کے ذمہ اعادہ یا دم وغیرہ لازم نہیں ہوتا ہے۔ وإن کان عاجزاً عن المشي أجزأہ ولا شيء علیہ؛ لأن التکلیف بقدر الوسع۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۳۰ کراچی، ۲؍۳۱۱ زکریا) ونحن نقول إذا رکب من عذر فلا شيء علیہ وإلا أعادہ، وإن لم یعدہ لزمہ دم، وکذا إذا طاف زحفاً۔ (فتح القدیر ۳؍۵۸ بیروت) أي أنہ إن ترکہ بلا عذر لزمہ دم، وإن بعذر فلا شيء علیہ مطلقاً۔ (شامي ۲؍۵۵۳ کراچی، ۳؍۵۸۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۷؍۲؍۱۴۱۱ھحطیم کے اندر سے طواف معتبر نہیں سوال(۹۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی شخص عمرہ کے طواف میں پورا طواف یا طواف کے اکثر اشواط حطیم کے اندر سے کرلے تو کیا اس کا طواف صحیح ہوجائے گا یا دم واجب ہوگا؟ اور دم دینے سے اس کا طواف اور عمرہ صحیح ہوجائے گا یا نہیں؟اور اگر بعد میں طواف کا اعادہ کرلے تو کیا دم ساقط ہوجائے گا یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق : حطیم بھی دراصل بیت اللہ شریف ہی کا حصہ ہے؛ لہٰذا اس کی حدود سے باہر ہوکر طواف کرنا واجب ہے، اگر حطیم کے اندر سے طواف کیا تو ترکِ واجب کی وجہ سے دم جنایت لازم ہوگا، اور اگر بعد میں پورے طواف کا یا کم از کم خارج حطیم حصہ کا اعادہ کرلیا تو دم ساقط ہوجائے گا۔ السادس: الطواف وراء الحطیم فلو طاف للزیارۃ أو العمرۃ في جوف الحجر یعید الطواف کلہ أو علی الحجر فقط، والأول أفضل، فإن لم یعد فعلیہ