خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کیا وجوبِ دم کیلئے جنایت کا ۱۲؍گھنٹے تک پایا جانا شرط ہے؟ سوال(۷۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہم نے آپ کی کتاب ’’’کتاب المسائل ۳؍۱۵۱‘‘حج کی جنایات کے بیان میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ جو شخص دن یا رات میں کسی جنایت کا مرتکب ہو تو اس پر دم لازم ہے اور پھر آپ نے بریکٹ میں بارہ گھنٹے کا ذکر کیا ہے، تو احقر کا سوال یہ ہے کہ دن ورات میں گھنٹوں کے اعتبار سے فرق ہوتا رہتا ہے کبھی دن بڑا ہوتا ہے اور رات چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے، تو کیا ایسی صورت میں میں بارہ گھنٹے کی تحدید درست ہوگی؟ یہ کہاں سے ماخوذ ہے؟ وضاحت فرمائیں کہ اگر نو گھنٹے کے دن یا رات ہوں تو بھی بارہ گھنٹے کی تحدید ہوگی یا اصل دن ورات کے گھنٹوں کا اعتبار ہوگا؟ باسمہ سبحانہ تعالیٰ الجواب باللّٰہ التوفیق: ’’کتاب المسائل‘‘ میں دم جنایت کے وجوب کے لئے ۱۲؍گھنٹے کی قید لگانے میں احقر سے تسامح ہوا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ دم جنایت کا مدار ۱۲؍گھنٹے پر نہیں ہے؛ بلکہ ایک کامل دن یا ایک کامل رات جنایت کے پائے جانے پر ہے، پس اگر کسی زمانے میں ۱۰؍گھنٹے کی رات ہو رہی ہو اور پوری رات جنایت پائی گئی، تو دم واجب ہوگا۔ اسی طرح اگر دن کے گھنٹوں میں کمی بیشی ہو اس کا بھی اعتبار کیا جائے گا؛ البتہ اگر درمیان دن یا درمیان رات سے جنایت شروع ہوئی، تو پھر اس میں ۱۲؍گھنٹے معتبر ہوں گے؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ بارہ گھنٹے کی تحدید ہر صورت پر صادق نہیں آتی؛ بلکہ بعض صورتوں کے ساتھ خاص ہے اور اس کو مطلق معیار بنانا درست نہ ہوگا، آپ کے توجہ دلانے پر احقر مشکور ہے، آئندہ اشاعت میں مذکورہ عبارت سے بارہ گھنٹے کی تحدید حذف کردی جائے گی۔ جزاکم اللّٰہ أحسن الجزاء۔ (مستفاد: جواہر الفقہ ۴؍۱۶۰، فتاویٰ حقانیہ ۴؍۲۶۵) أو لبی مخیطا أو ستر رأسہ یوما کاملا أو لیلۃ کاملۃ۔ (درمختار) وتحتہ في الشامي: الظاہر أن المراد مقدار أحدہما فلو لبس من نصف النہار إلی نصف اللیل من غیر انفصال أو بالعکس لزمہ دم، کما یشیر إلیہ قولہ: وفي الأقل صدقۃ۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۵۷۷ زکریا)