خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
مزدلفہ کا مطلب علماء نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس میں معافی کی بات یا تو اس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میںشریک ہونے والوں کے ساتھ خاص ہے، یا اس شخص کے لئے ہے جس کے ذمہ کسی دوسرے بندہ کا حق نہ ہو، اور وہ تادم حیات نافرمانیوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔ وظاہر الحدیث عموم المغفرۃ وشمولہا حق اللّٰہ تعالیٰ وحق العباد إلا أنہ قابل للتقیید من کان معہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في تلک السنۃ أو بمن یقبل حجہ بأن لم یرفث ولم یفسق۔ (مرقاۃ المفاتیح ۱۲؍۲۴۱) اور دوسری حدیث کہ:’’مؤمن کو نافرمانی کی سزا دنیا میں دے کر آخرت میں جنت ملتی ہے‘‘، اس کو بھی عام نہیں کہا جاسکتا؛ کیوںکہ دیگر احادیث سے ثابت ہے کہ حقوق میں کوتاہی پر آخرت میں سخت سزا ملے گی؛ اس لئے اس حدیث کو حقوق اللہ کے ساتھ خاص مانا جائے گا، اور حقوق العباد بغیر صاحب حق کے معافی کے معاف نہیں ہوںگے؛ لہٰذا کسی صاحب حق کا اپنے حق کا مطالبہ کرنا حدیث کے کسی طرح خلاف نہیں ہے، اور یہ بات بھی غلط اور بلادلیل ہے کہ جسے دنیا میں سزا نہ ملے وہ کافر سمجھا جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ۲۲؍۲؍۱۴۱۹ھ الجواب صحیح:شبیر احمد عفا اللہ عنہغلطی سے وقوف مزدلفہ حدود سے پہلے کرلیا؟ سوال(۱۸۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہم لوگ پچھلی مرتبہ عرفات سے لوٹتے وقت مزدلفہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی بس سے اتر گئے تھے، چناںچہ رات کو قیام کے بعد جب وہاں سے چلے تو مزدلفہ کا بورڈ نظر آنے پر معلوم ہوا کہ رات کو مزدلفہ میں داخل ہی نہیں ہوئے، چنانچہ نماز جمع بین الصلوٰتین کا وجوب باقی رہ گیا جو مزدلفہ میں ہونا چاہئے تھا؛ اس لئے دم لازم آنا چاہئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں اس بار حج کے موقعہ پر پچھلا دم کس طرح ادا ہو؟ کیا وہ اب بھی ضروری ہے؟