خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
فإن الحج في نفسہ مأمور بہ، وإنما یحرم من حیث الإنفاق، وکأنہ أطلق علیہ الحرمۃ؛ لأن للمال دخلا فیہ، فإن الحج عبادۃ مرکبۃ من عمل البدن والمال کما قدمناہ، ولذا قال في البحر: ویجتہد في تحصیل نفقۃ حلال، فإنہ لایقبل بالنفقۃ الحرام کما ورد في الحدیث، مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا، ولا تنافي بین سقوطہ وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول، ولا یعاقب عقاب تارک الحج۔ (شامي ۳؍۴۵۳ زکریا، مجمع الأنہر ۱؍۲۶۱، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۰) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۵؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہحرام مال سے سفر حج سوال(۴۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی شخص کے پاس اتنا پیسہ حرام کا ہو جس کی وجہ سے اس پر حج فرض ہوتا ہو، تو کیا وہ شخص اس حرام مال سے حج کرے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:حرام مال سے حج کرنا جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر کرلے گا تو فریضہ ساقط ہوجائے گا اور حج میں حرام مال خرچ کرنے کا گناہ بھی ہوگا۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۵؍۴۷۹، امداد الفتاویٰ ۳؍۵۱۸) ویجتہد في تحصیل نفقۃ حلال، فإنہ لایقبل بالنفقۃ الحرام کما ورد في الحدیث، مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا، ولا تنافي بین سقوطہ وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول، ولا یعاقب عقاب تارک الحج۔ (شامي ۳؍۴۵۳ زکریا) فلا تجب بإباحۃ ولا بمال حرام؛ لکن لو حج بہ جاز؛ لأن المعاصي لاتمنع الطاعات، فإذا أتی بہا لا یقال: إنہا غیر مقبولۃ، کما في مکروہات صلاۃ