خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حیث ما دار سلباً وایجاباً، وحصل الخلاف فی المسئلۃ بین العلماء باعتبار ما کان المنی علیہا، اما الاٰن فقد تغیر الوضع فاصبحت منی من مکۃ المکرمۃ ولیس ذٰلک فی زمن موسم الحج بل علی مدار السنۃ لاستدامۃ إقامۃ الناس بہا۔ (حاشیۃ: البحر العمیق ۳؍۱۴۹۳) ترجمہ:- ’’منیٰ اب مکہ معظمہ کے اندر آچکا ہے؛ کیوںکہ آبادی کی وسعت منیٰ تک پہنچ گئی ہے، اس بناء پر علت کے بدلنے سے حکم بھی بدلے گا؛ کیوںکہ حکم علت کے ساتھ دائر رہتا ہے، جہاں بھی دائر ہو، مثبت یا منفی طور پر، اور پہلے زمانہ میں منیٰ کی جو صورتِ حال تھی اسی اعتبار سے (منیٰ میں اقامتِ جمعہ کے سلسلہ میں) فقہاء میں اختلاف ہوا تھا؛ لیکن اب صورتِ حال بدل چکی ہے، اور منیٰ مکہ معظمہ میں شامل ہوچکا ہے، اور یہ صرف موسم حج ہی کے لئے نہیں ہے؛ بلکہ سال بھر کے لئے یہی حکم ہے؛کیوںکہ برابر وہاں لوگوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے‘‘۔مفتی مدینہ حضرت مولانا مفتی عاشق الٰہی مہاجر مدنیؒ کا فتویٰ (۵) مدینہ منورہ کے متبحر عالم، مفسرِ قرآن حضرت مولانا مفتی عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہٗ (المتوفی ۱۴۲۲ھ) نے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا: ’’اگر حکومتِ سعودی منیٰ کو مکہ معظمہ کا محلہ تسلیم کرلے تو صرف قصر واتمام کے مسئلہ میں فرق آسکتا ہے، جو امورِ منیٰ سے متعلق ہیں وہ بہرحال منیٰ ہی سے متعلق رہیںگے، یعنی منیٰ اگرچہ مکہ معظمہ کا محلہ بن جائے پھر بھی وہاں یوم الترویہ گذارنا، پانچ نمازیں منیٰ میں پڑھنا، نویں کو منیٰ سے روانہ ہونا سنت رہے گا‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اگر منیٰ کو مکہ معظمہ کا حصہ مان لیا جائے تو مکہ معظمہ میں پندرہ دن رہنے سے مقیم ہوجائے گا، اور شک کو مٹانے کے لئے دو رکعت کی جگہ چار رکعت پڑھ لے تب بھی نماز ہوجائے گی‘‘۔ (یادگار صالحین ۸۳۲-۸۳۳، مؤلفہ: مفتی عبد الرحمن کوثر مدنی مدظلہٗ)ایک شبہ کا ازالہ یہ کہہ کر منیٰ اور مزدلفہ کو حدودِ مکہ سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ یہ محض میدان ہے، یہاں کوئی